Friday 27 December 2013

علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کا مختصر تعارف

علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی ،بلتستان کے علاقہ شگر کے ایک گاؤں علی آباد میں 1938 عیسوی میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک دیندار اور شریف شیعہ گھرانے سے تھا۔علامہ شرف الدین موسوی کا خاندان سادات سے ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نام کے آخر میں "موسوی" لکھا جاتا ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی۔قرآن اور دیگر شیعہ کتب حدیث و تاریخ پر زمانہ طالب علمی میں ہی دسترس حاصل کیا۔آپ چونکہ ایک خالص شیعہ اثنا عشری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے پاکستان سے بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلے ایران کا رخ کیا۔
آپ 1955 میں ایران پہنچے جہاں آپ نے مشہور و معروف شیعہ درسگاہ "حوزہ علمیہ نجف" میں داخلہ لیا۔حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دواران آپ نے وہاں کے نساب میں قرآن کو لازمی مضمون کے طور پر شامل نہ کرنے پر شکایت کی۔نجف اشرف میں آپ کے استاد آیت اللہ صادقی تہرانی تھے جو خود قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے پر جوش حامی تھے۔اس کے علاوہ آپ نے آیت اللہ باقر صدر سے بھی شرف تلمذ ھاصل کیا۔
اس کے بعد آپ نے عراق کا بھی رخ کیا،تاکہ اسلامی علوم کو حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔چنانچہ ایران و عراق سے اسلامی علوم پہ دسترس حاصل ہونے کے بعد آپ نے 12 سال بعد1967-68 میں پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔
سر زمین پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان"کی بنیاد رکھی۔اس ادارے کے تحت انہوں نے مذھب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔
انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔انہوں نے پاکستان میں امام مھدی سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب کو بھی عام کیا ،ان کتابوں میں "شیعت کا آغاز کب اور کیسے،تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا،فلسفہ امامت،مذہب اہل بیت،شب ہاے پشاور،اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں،فلسفہ امامت،،اس کے علاوہ دعائے ندبہ وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔اس سیمینار میں ملک کے علماء و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔
1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا،جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔
آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ علی شرف الدین موسوی ان کا شمار اس دور کے چوٹی کے علماء مین ہونے لگا اور شیعہ اثنا عشری کے مرکزی قائدین میں آپ کا شمار ہوگیا۔چنانچہ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی شیعہ مسلک کی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔
علامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی اللولو والمرجان اور حسین شناسی جیسی کتب شایع کیں۔اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ عزاداری کیوں،انٹخاب مصائب امام حسین،قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چناچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ اور شیعہ اہل بیت اور موضوعات متنوعہ لکھی۔اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔چنانچہ آغا صاحب کے ان بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علماء ان کے مخالف ہو گئے۔بہت سے علماء نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔چنانچہ آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔غرض آج بھی آگا صاحب اپنے موقف پر قائم ہے اور شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کراتا ہے۔آج بھی آغا صاحب چیلنج کرتے ہیں کہ اگر میرا موقف غلط ہے تو میری زندگی میں ہی دلائل سے جواب دیں نہ کہ ڈنڈے کے زور پر ان کو عقائد سے دستبردار ہونے کیلے کہا جائے۔بلاشک و شبہ آغا صاحب ایک دلیر اور منصف مزاج شخصیت ہے،جن کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اب "50" پچاس کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ان کی اک اک کتاب سے حق و صداقت کی بو آتی ہے۔آج بھی ان کا اعلان ہے کہ "صرف قرآن و سنت ہی میرا دین ہے۔اسلام کے سوا فرقوں سے مجھےنفرت ہے۔اللہ کی وحدانیت اور توحید سے مجھے مھبت ہے اور رسول ختم نبوت اور سنت سے مجھے محبت ہے،اہل بیت کا میں تا بعدار اور رسول اللہ کے سفر و حضر کے ساتھیوں کو مسلمان مانتا ہوں اور ان کو میں کافر نہیں کہ سکتا۔شرک و بدعات اور خرافات سے مجھے نفرت اور کراہت ہے۔"۔

No comments:

Post a Comment