Monday 16 December 2013

"جس روز سے ہم شیعہ مسلک مین رائج افکار و نظریات کی تصحیھ اور اصلاح کے لئے قلم و زبان کو حرکت میں لائے اسی دن سے ہمیں تہمت و افتراء کا نشانہ بنایا گیا،ہمارے موقف میں شدت کی وجہ سے لوگوں نے ہم پر الزام تراشیاں کرتے ہوئے تہمت لگائی کہ یہ کام کسی اور کی ایماء پر انجام دیا جا رہا ہے،ہم نبی کریمص کی ساحت سے اونچے نہیں اور نہ ہی ہماری کوئی حیثیت ہے جب نبی کریم ص قرآن لائے تو لوگوں نے کہا یہ اجنبی اور باہر والوں کی سکھائی ہوئہ باتین ہیں جو ان کی ایما پر کہی جاتی ہیں تاہم ہمارے موقف میں تشدد کی وجہ بڑھتے ہوئے انحرافات ہین جو ھر آئے دن واضح و آشکار صورت میں اسلام و مسلمین کو داؤ پر لگانے اور قرآن کے خلاف اپنوں سے دشمنی اور غیروں سے دوستی کو فروغ دینے میں موثر ہو رہے ہیں،تاریخ اسلام کے وسیع پیمانے پر مطالعے،اس کے بارے میں سوال و استفسار اور علل و اسباب کی جستجو نے ہمیں اس نتیجہ پر پہنچایا ہے کہ مسلمان فرقوں کے نزدیک اسلام،قرآن اور نبی اسلام ص سے زیادہ عزیز ان کا اپنا فرقہ ہے،وہ فرقے کے دوام و بقاء کی خاطر اسلام،قرآن اور نبی کو خیر باد کہ سکتے ہیں لیکن اپنا فرقہ نہیں چھوڑ سکتے اسی فکر و سوچ نے انہیں اس دھانے پر لا کھرا کیا ھے کہ وہ تاریخ اسلام کے مسلمہ حقائق کو جھٹلائیں یا ان حقائق کی اپنی مرضی کے مطابق تاویل کریں اصحاب پیغمبر جنہوں نے اپنے دنیاوہ مفادات کی خاطر بہت سی جگہوں پر راہ انحراف کو اپنایا ۔ہمارے ہاں انہیں دنیا کے کافر و مشرک سے بدتر قرار دیا جاتا ہے،ان کی دشمنی مین ان کے ماننے والون سے دشمنی برتتے ہوئے دنیائے کفر و شرک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاتا ہے،ستم ظریفی یہ کہ ان کے اس عمل کو بعج علماء و دانشمندان نے عین شریعت قرار دیا ہے۔"
(کتاب محمد ؐمصطفی صفحہ 669 از علامہ سید علی شرف الدین موسوی شگری بلتستانی)

No comments:

Post a Comment