Saturday 5 April 2014

تقیہ سے متعلق آغا صاحب کا دو ٹوک موقف

فضائل اہل بیت کے بہانے غالیوں نے ایسی احادیث گھڑیں کہ ان کی جب اہل بیت کو خبر ملتی تو وہ اس کی مذمت کرتے۔اس وقت کسی بھی قسم کے ذرائع و ابلاغ نہیں تھے اور نہ ہی تحریری۔اس دور میں مدینہ سے کوفہ کوئی خبر پہنچنا اور پھر اس کا جواب پہنچنے میں کتنی دیر لگتی یہ واضح ہے۔اس سے یہ لوگ استفادہ کرتے۔یہ لوگ امام محمد باقر کے نام سے امام جعفر صادق کے نام سے احادیث جعل کرتےتھے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق تک پہنچتے پہنچتے مہینوں گزر جاتے جس پر وہ ان کی رد فرماتے،انہوں نے ایک اور حربہ استعمال کیا اور کہا امام نے تم سے تقیہ کیا ہے۔پھر انہوں نے تقیہ کو جزء دین گرداننے کے لئے خود امام سے ضرورت اور فضیلت تقیہ کے بارے میں احادیث جعل کیں تقیہ کی حقیقت معلوم ہونے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ غلات نے اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لئے تقیہ وضع کیا ہے آئمہ سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

ہشام ابی شاکر کے غلاموں میں سے تھا اور ابی شاکر زندیق تھا-ہشام بن حکم مومن طاق جس نے اس فکر کی تشھیر کی انہی افراد نے تقیہ کو جعل کیا تقیہ یعنی جھوٹ ۔جب ایسی باتیں پھیلاتے تو اس کے برے نتائج نکلتے اور جب برے نتائج نکلتے تو یہ لوگ اپنی حرکتوں سے انکار کرتے تھے اور تقیہ کو ڈھال بناتے۔

مسجد نبوی

مسجد نبوی
............................
مسجد نبوی کی اپنی ابتدائی دور سے الی یومنا ھذا چندیں بار توسیع ہوئی ہے۔مسجد نبوی کی بنیاد اس جگہ پر ہوئی جہاں مصعب بن عمیر بعض مہاجرین و انصار کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔مصعب بن عمیر مکہ واپس جانے کے بعد ان کی جگہ پر اسعد بن زرارہ نماز پڑھتے تھے۔
جب نبی کریم ص مدینہ پہنچے تو عوالی میں قبیلہ بنوعمر بن عوف میں قیام کیا۔عوالی مدینہ کے اس طرف کو کہتے ہیں جو نجد کی طرف ہے اور جو تہامہ کی طرف اس کو سافلہ کہتے تھے اور قبا عوالی کی طرف تھا۔کہتے ہیں پیغمبر عوالی میں 14 دن رہے پھر بنی نجار کو پیغام بھیجا چنانچہ وہ تلواریں نیام سے نکال کر آئے ۔پیغمبر اپنی سواری پر تھے،ابوبکر ان کی سواری کے پیچھے تھے اور بنی نجار ان کے اردگرد تھے یہاں تک یہ ابوایوب کے گھر کے باہر پہنچے۔وہاں آپ نے نماز پرھی جو حیوان رکھنے کی جگہ تھی۔

جب نبی کریم ص مدینہ پہنچے تو اسی جگہ نماز پرھی۔کہتے ہیں پیغمبر کا اونٹ آکر اسی مسجد کے نزدیک رکا تھا جہاں بعض مسلمان نماز پڑھتے تھے یہ جگہ جہاں سہل و سہیل دو یتیموں کی تھی جہاں وہ اونٹ وغیرہ رکھتے تھے۔نبی کریم نے ان دونوں کو بلایا ان سے معاملہ کیا تاکہ اس جگہ پر مسجد بنائی جائے۔ان دونوں نے کہا رسول اللہ ہم آپ کو ھبہ کرتے ہیں پیغمبر نے کہا نہیں ہم آپ سے معاملہ کرتے ہیں اور آپ کو دس دینار دیتے ہیں چنانچہ آپ نے ابوبکر سے کہا انہیں دس دینار دیں۔اس حدیث کے مطابق اس مسجد میں ابوبکر کا حصہ ہے۔ربیع الاول پہلی صدی ہجری کو نبی کریم ص کے مبارک ہاتھوں سے اس کی بنیاد ڈالی گئی۔وہاں ایک دیوار بنی ہوئی تھی اور اس پر چھت نہیں تھا جس کا قبلہ بیت المقدس کی طرف تھا۔اسد بن ضرارہ اس کے بانی تھے۔جمعہ کی نماز بھی پڑھتے تھے ۔نبی کریم کے آنے سے پہلے انس بن مالک سے مروی ہے۔

اس مسجد کا طول سات ہاتھ اور اس کی چورائی سات ھاتھ پر مشتمل تھی۔35 ضرب 30 میٹر اس کی مساحت تھی جب کہ کل مساحت 4200 ضرہ مربعہ پر محیط تھی۔کل 1050 مربع تھی بلندی۔نبی کریم ص جب 7 ہجری کو خیبر سے واپس تشریف لائے تو پہلی بار اس کی توسیع کی 40 ہاتھ طویل یعنی 20 میٹر 30 ہاتھ پر تھی۔17 ہجری کو عمر نے پھر عثمان نے اس کی توسیع کی،پیگمبر کی حیات میں اس کے(پلر) کھجور کے تنہ تھے اوپر سقف کھجور کی شاخیں تھین باقی کو کھلا رکھا نبی کریم ترجیھ دیتے تھے کہ مسجد کو اسی سادہ حالت میں رکھیں۔سادہ حالت میں رکھنے کا سبب یہ نہیں تھا کہ گنجائش نہیں تھی مالی کمی تھی کیونکہ اصحاب پیغمبر نے مال جمع کرکے دیا کہ مسجد بنائیں اور اس کو کھجور کے تنے کی بجائے بہتر طریقہ سے بنائیں لیکن پیغمبر نے اسے قبول نہیں فرمایا آپ نے فرمایا مجھے اپنے بھائی موسی سے ہٹ کر کوئی جگہ نہیں بنانی،اس نقل معتبر کے بعد این جی اوز کے توسط سے قصور معلی شہنشاہیت مانند بلند قبہ بلند مینار والی مساجد،مصلیں وسعت مسجد دیکھ کر شرم نہ کرنے والے انسانون پر حیرت ہے۔

(آغا صاحب کی کتاب معجم حج و حجاج سے اقتباس)

فقہ جعفری میں اہل بیت سے کتنی روایات مروی ہیں؟؟

"تیسرے فریق نے ان دونوں(اہل قرآن اور اہل حدیث) کے روش کو مسترد کرتے ہوئے ایک طرف قرآن کو ناقص مبہم،مجمل اور منحرف کتاب قرار دیا اور دوسری طرف سے سنت رسول کے بارے میں بانگ دھل واشگاف الفاظ میں کہا رسول کی سنت حجت ہے لیکن ہم رسول کی سنت اصحاب سے نہیں لیتے کیونکہ تمام اصحاب عادل نہیں ہیں۔یعنی اصحاب میں فسق و فجور کے مرتکب افراد بھی تھے لہذا ہم سنت کو زہل بیت سے ہی لیتے ہیں۔اس طرح یہ گروہ اسلام کے دونوں مصدر قرآن و سنت نبوی سے لنگڑا ہے ۔ان دونوں مصادر کے انکار کے بعد مندرجہ ذیل سوالات استبصارات پیش آتے ہیں:
اہل بیت سے مراد کون ہیں اس میں کون کون سی ذوات اور ہستیاں آتی ہیں لیکن اس سوال کے جواب میں مضطرب پراگندگی سے دوچار ہیں ۔کہتے ہیں اہل بیت سے مراد حضرات امیرالمومنین حضرات حسنین فاطمہ زہراء امام سجاد یک بعد دیگر اہل بیت کے مصداق ہیں۔لیکن آپ ان کے 51 ابواب فقہ میں امیرالمومنین سے جو سب سے پہلے اہل بیت کے مصداق ہیں جو رسول اللہ کی بعثت سے پہلے ان کے ساتھ رہے۔آپ کے پروردہ ہیں آپ کے حضر و سفر میں آپ کے ساتھ رہے ہیں۔آپ کے بعد تیس سال زندگی گزاری ہے اور چار سال خلافت پر رہے بتائیں ان سے کتنی احادیث منسوب ہیں؟
2-حضرت فاطمہ زہراء جو بعثت سے پہلے یا ابتدائی سالوں میں پیدا ہوئی ہیں۔تمام ادوار رسالت میں آپ کو دیکھا ہے آپ کی کتابوں میں حضرت زہراء سے کتنی احادیث موجود ہیں؟
3۔آپ قطعی طور پر بعض اصھاب کے عادل ہونے کے معتقد ہیں آپ بتا دیں آیا ان سے سنت رسول لینے میں کیا جھجک ہے مثلا سلمان سے اباذر مقداد سے ابن عباس سے آپ نے کتنی روایات نقل کیا ہے؟
4۔حضرات حسنین جنہوں نے ہجرت کے آخری سالوں کو کمال درک و بصر و بصیرت کے ساتھ درک کیا ،ان دو ذوات سے کتنی احادیث فقہ میں موجود ہیں۔اس کے بعد تابعین میں امام سجاد ہیں ان کی طرف سے ان سے منسوب کتنی احادیث ہیں۔
ان تمام ابواب فقہ کیلے ایک معتد بہ مقابل مقدار کافی احادیث نہ ملنے کے بعد انہوں نے چھلانگ مار کر کہا کہ تقیہ اور سخت پابندیوں کی وجہ سے اندرون خانہ محصور ہونے کی وجہ سے یہ ذوات احکام شرعیہ کو بیان نہیں کر سکے۔اور یہ کام کرنے کا موقع صرف امام جعفر صادق کو نصیب ہوا۔

بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان جاری اقتدار کی رسہ کشی سے آپ کو ایک قسم کی آزادی ملی جس میں آپ نے بھرپور طریقہ سے حکم شریعت کو بیان کیا۔لہذا ہم دین کو امام جعفر صادق سے لیتے ہیں۔اسی وجہ سے ہم خود کو جعفری سے انتساب کرتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ:
آپ دین و شریعت کو امام جعفر صادق سے لیتے ہیں لیکن نام سب اہل بیت کا لیتے ہیں اس کی کیا منطق ہے؟امام جعفر صادق رسول اللہ سے نہیں ملے۔تو آپ نے یہ تمام احکام شرعی کہاں سے اخذ کئے۔اگر کہتے ہیں امام نے یہ سب ازروئے وحی اللہ سے لیا چنانچہ اس سلسلہ میں گروہ آئمہ کے وحی سے متصل ہونے کا سلسلہ باقی رہنے کا دعوی بھی کرتے ہیں۔جب کہ تسلسل وحی تسلسل نبوت کی ایک کڑی ہے اور قرآن اور امت کی وحدت اجماع کے تحت تسلسل نبوت سورہ نساء آیت 165 کے تحت منقطع ہے۔نہج البلاغہ میں امیر المومنین فرماتے ہیں حجت نبی کے بعد ختم ہوئی ہے۔لہذا امام جعفر صادق نے اتنی احادیث کس سے سنی ہیں؟؟
اگر امام محمد باقر اور امام سجاد سے مروی ہیں تو کیوں امام باقر اور امام زین العابدین سے اتنی احادیث نہیں،اگر امام زین العابدین نے امام حسین سے سنی ہیں تو کیوں امام حسین سے اتنی احادیث مروی نہیں ہیں۔یہ کہنا کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان اقتدار کی کشمکش میں انہیں موقع ملا اور آپ نے درس کا بندوبست کیا۔ایسی کوئی تاریخ بتائیں جب اتنے افراد مدینہ میں آپ کے حلقہ درس میں شریک ہوئے۔ان افراد اور جائے درس کا ذکر کریں،مسجد نبوی پر بنی امیہ کے دور میں انہی کا قبضہ تھا اور بنی عباس کے دور میں بنی عباس کا تو کیا امام صادق نے کوفہ کی مسجد میں درس دیا ہے اگر ایسا ہے تو وہ تاریخ بتایں جب امام کوفہ آئے اور کیوں کوفہ تشریف لائے اور کس سن میں تشریف لائے اس کا تاریخی حوالہ دیں۔

اگلا سوال امام جعفر صادق سے نقل کرنے والے راوی کتنے ہیں ان راویوں کا حال بھی بیان کریں۔ہم نے اس کی وضاحت اپنی کتاب "شیعہ اہل بیت" میں بیان کی ہے۔جن راویوں کو آپ نے امام جعفر صادق سے اتنی ضحنیم احادیث نقل کرنے کا دعوی کیا ہے ان راویوں کا نام آپ کے معاجیم رجال میں یا مجہول یا مہمل ہے یا ان کا نام ہی نہیں پایا جاتا۔اس کے علاوہ امام صادق فرماتے ہیں ہم جو کچھ حکم شرعی تمھیں بیان کریں اس کی سند ہم سے قرآن اور سنت رسول سے طلب کریں کہ یہ قرآن میں کہاں اور سنت رسول میں کہاں ذکر ہوا ہے اگر سند نہ مل سکے تو سمجھ لیں ہم سے منسوب احادیث کا حکم غلط ہے۔
ہر حکم شرعی کا قرآن یا سنت رسول سے انتساب ضروری اور ناگزیر ہے چنانچہ اصول کافی ج 1 صفحہ 59 باب فصل علم میں حدیث الرد الی الکتاب والسنہ میں آٹھ یا نو احادیث نقل کی گئی ہیں۔ان کے پاس امام جعفر صادق کے بعد پھر خاموشی چھا جاتی ہے اور اچانک شیخ صدوق کا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے جنہوں نے جعلی راویوں سے مستند احادیث کی خود ساختگی کی شرمندگی سے بچنے کیلے تمام اسناد کو حذف کر کے خود ضمانت دی اور حدیث بلا سند کو پیش کیا ہے۔آپ کے بعد والوں نے ان احادیث کو بھی حذف کیا اور اپنی مرضی سے فتوی دینے کا سلسلہ شروع کیا اور یقین دہانی کرائی کہ ہم آپ کو قرآن و سنت سے مستنبط فتوی دیں گے۔جب ان سے سند کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو یہ فقیہ اور ان کے وکلاء چڑ جاتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں۔اس غوغا اور چڑ کی چھتری سے استفادہ کرتے ہوئے یہ قرآن و سنت کے خلاف فتوی دینے میں سرگرم ہوئے ہیں چنانچہ مناسک حج و عمرہ میں اپنی مصلحت تراشی سہولتوں کے بہانے حج کو قرآن و سنت کے دائرے سے نکال کر اپنی خواہشات کے کنارے لگایا ہے۔اب جو بھی شخص اس بارے میں زبان کھولتا ہے سوال کرتا ہے تو عتاب کا نشانہ بنتا ہے۔یہ اپنے ساتھ لائے ہوئے حجاج کو بکرا بنا کر بیوقوف بھی بناتے ہیں۔انہیں یہ احکامات سنائے جاتے ہیں کہ کسی کی بات نہ سنیں کسی کی مجلس و محفل میں نہ بیٹھیں۔حرم میں نہ جائیں۔یہاں تک کہ ہمارے دوست دلنواز صاحب کا کہنا ہے جو ان کی کارکردگی کے خلاف بات کرتے ہیں وہ علمائے یہود ہیں"۔

(صفحہ 138 معجم حج و حجاج استاد علی شرف الدین صاحب)

آغا علی شرف الدین علی آبادی صاحب کی کتابیں Names of Books Written by Agha Ali Sharfuddin Mousvi

Agha Sharfuddin wrote following 65 books
آغا علی شرف الدین علی آبادی صاحب کی لکھی گئی 70 کتابوں میں سے 65 کے نام یہ ہیں
1-قرآن سے پوچھو
2-انبیاء قرآن(محمد مسطفی)
3-مکتب تشیع اور قرآن
4-سوالات و جوابات معارف قرآن
5-قرآن اور مستشرقین
6-قرآن میں مذکر و مونث
7-قرآن میں شعر و شعراء
8-انبیاء قرآن(آدم،نوح،ابراہیم)
9-انبیاء قرآن(موسی ،عیسی)
10-اہل ذکر کے جوابات
11-قرآن میں امام و امت
12- تفسیر عاشورا
13- تفسیر سیاسی قیام امام حسین
14- قیام امام حسین کا جغرافیائی جائزہ
15- اسرار قیام امام حسین
16- عزاداری کیوں؟
17- انتخاب مصائب۔ترجیحات-ترمیمات
18- مثالی عزاداری کیسے منائیں؟
19- عنوان عاشورا
20- قیام امام حسین غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں
21- معجم کتب مولفین امام حسین
22- حج و عمرہ قرآن و سنت کی روشنی میں
23- عقائد و رسومات شیعہ
24- مسجد
25- آمریت کے خلاف آئمہ طاہرین کی جدو جہد
26- افق گفتگو
27- مدارس دینی و حوزات علمیہ پر نگارشات
28- ہماری ثقافت و سیاست کیا ہے؟اور کیا ہونی چاہیے؟
29- شکوؤں کے جواب
30- مجلہ اعتقاد
31- شکوہ جواب شکوہ
32- فصل جواب
33- جواب سے لاجواب
34- عوامی عدالت کے شمارے
35- مجلہ فصلنامہ عدالت
36- موضوعات متنوعہ
37- تعدد قرآت مترادف تحریفات
38- فرقوں میں جذور شرک و الحاد
39- ادوار تاریخ اسلام
40- اصول عزاداری
41- مکتب تشیع اور قرآن
42- تفسیر دعائے ندبہ
43- کشور اعتقاد
44- فلسفہ دعا
45- فلسفہ نماز
46- قرآن شناسی
47- سیرت شناسی انبیاء و آئمہ طاہرین
48- علم اور دین
49- دفاعیات
50- متفرقات
51- معجم حج و حجاج
52۔ دور شدور شادت
53- مدخل الدرسۃ التاریخ
54- دور ضالہ
55- دور لحادہ
56- انبیاء قرآن(لوط،صالح،یعقوب،یوسف)
57۔ دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی
58۔ تفسیر شہید الصدر
59- حضرات حسنین
60۔ ترجمات
61- مکتوبات شرف الدین
62- صرخہ حق
63۔۔ جوابات صارخۃ
64۔ قرآنیات
تحفہ منورین-65

آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کون ہیں؟؟ Who is Agha Syed Ali Sharfuddin Mousvi Baltistani

آغا سید علی شرف الدین موسوی صاحب کی شخصیت پاکستان کے علماء (بشمول شیعہ و سنی) میں احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔آپ اس دور کے ایک عظیم مصلح اور اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں۔آپ قرآن اور اسلام ناب محمدی کی دعوت دینے والے اسکالرز میں سے ہیں۔مرحوم مولانا اسحاق فیصل آبادی جو اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے،آپ کے ان سے بھی دوستانہ روابط تھے۔آج بھی علامہ سید علی شرف الدین موسوی پاکستان میں فرقہ بندی کی بجائے صرف اسلام کی طرف دعوت دینے والے گنے چنے اسلامی اسکالرز و علماء میں سے ہیں۔


علامہ سید علی شرف الدین موسوی صاحب کی جائے پیدائش بلتستان کے ایک محلہ علی آباد شیگر کی ہے، جو مشہور پہاڑی چوٹی K-2 کے گردونواح کی ایک وادی ہے۔ ان کی سن پیدائش١٣٦٠ ہجری (1942) ہے. آپ بلتستان کے ایک شیعہ سادات کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ موسوی سید ہونے کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ موسوی لکھتے ہیں۔ آپ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے علاقے بلتستان، شمالی پاکستان، سے حاصل کی۔اس کے بعد اعلی اسلامی تعلیم کے حصول کے لئے ملک سے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔

اور آغا صاحب حصول علم کے لئے ١٣٧٧ ہجری کو نجف اشرف پہنچے۔اس کے علاوہ ایران بھی گئے۔ آپ کے استادون میں آیت اللہ صادقی تہرانی شامل رہے۔اور دین کو ثقل اکبر قرآن سے سمجھنے کی خواہش ان کی شاگردی نے ہی پیدا کی۔آغا صاحب نجف کے مدرسوں میں قرآن و حدیث کو شامل نہ کرنے کا ہر مقام پر شکوہ کرتے رہے ہیں اور یہ شکوہ صرف نجف تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مدارس قم بھی اس میں شامل ہیں۔۔عراق میں آپ کی ہمنشینی آیت اللہ باقر الصدر سے بھی رہی۔


آغا صاحب تقریبا ١٢ سال کے بعد نجف سے پاکستان آئے،آغا صاحب نے جس ادارے کی بنیاد ڈالی اس کا نام دارالثقافہ الاسلامیہ ہے یہ ادارے اپنے قیام سے اب تک کسی قسم سے بھی مرجعییت کے ذیر تسلط نہیں رہا اور نہ اس ادارے کو چلانے کے لئے کسی قسم کے خمس کا سہاری لیا گیا۔


پاکستان آنے کے بعد ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان" کے تحت انہوں نے مذھب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔انہوں نے پاکستان میں امام مھدی علیہ السلام سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب اور "دعائے ندبہ" کو بھی عام کیا ۔اس کے علاوہ عربی و فارسی کے شیعہ مسلک سے متعلق کتب "شیعت کا آغاز کب اور کیسے"،تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ" اور" پھر میں ہدایت پا گیا"،"فلسفہ امامت"،"مذہب اہل بیت"،"شب ہاے پشاور"،"اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں" اوراس کے علاوہسینکڑوں کتب کے اردو ترجمہ کا بھی اہتمام کیا۔

آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔

آغا صاحب نے ہی سب سے پہلے کراچی میں قرآن فہمی کے پروگرام کرائے اور قرآن فہمی کے عنوان سے مختلف مقابلے بھی کرائے۔آغا صاھب نے ہی سب سے پہلے کراچی میں دعائے ندبہ کی محافل کا آغاز کیا۔دروس کا سلسلہ بھی آغا صاحب کے ادارے میں طویل عرصے جاری رہا- جس کے زریعے سینکڑوں عاشقان دین مستفید ہوتے رہے-

انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔اس سیمینار میں ملک کے علماء و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔ 1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا،جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔

علامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف عزاداری اور قیام امام حسین علیہ السلامسے متعلق کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی "اللولو والمرجان" کا اردو ترجمہ "آداب اہل منبر" اور آیت اللہ یزدی کی "حسین شناسی" جیسی کتب کے ترجمے شایع کیں۔اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ "عزاداری کیوں"،ا"نتخاب مصائب امام حسین"،"قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ"،"تفسیر عاشورا" وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چناچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ" اور "شیعہ اہل بیت" اور "موضوعات متنوعہ" لکھی۔اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔

آغا صاحب کی کتابوں اور بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علماء ان کے مخالف ہو گئے۔بہت سے علماء نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔ان کی کتب پر آج بھی پابندی ہے۔لیکن برقی کتب ان کی آفیشل ویب سائیٹ "صبغۃ الاسلام"پر دستیاب ہیں۔

آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔ اس سے پہلے بھی "شیعہ اہل بیت نامی کتاب میں اور حالیہ کتاب "دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی " میں بھی شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کرایا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی شیعہ علی کا نظریہ اپنی کتاب "تشیع علوی و تشیع صفوی" میں پیش کر چکے ہیں۔اس کے بعد ڈاکٹر موسی الموسوی نے بھی اپنی کتاب "الشیعہ و التصحیح" میں شیعوں کو "علی کے شیعہ" اور خرافات سے پر شیعہ میں تقسیم کیا ہے۔آیت اللہ ابو الفضل برقعی قمی اور حیدر علی قلمداران بھی اپنے نام کے ساتھ "شیعہ اثنا عشری جعفری" کی بجائے "شیعہ علی"لکھتے تھے

آغا صاحب کے عقائد و نظریات

آغا صاحب چند مخصوص عقائد و نظریات یہ ہیں۔
امامت کو نص قرآنی سے نہیں مانتے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ نص وہ ہوتی ہے جس میں کوئی ابہام نہ ہو اور جب امت کے ایک بڑے طبقے نے غدیر خم کے موقع پر رسول اکرم صہ کا خطبہ سننے کے باوجود مولا کے معنوں میں اختلاف کیا تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ نص نہیں ہے۔اس کے علاوہ آغا صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ امام علی عہ ہمیشہ اپنی فضیلت کو معیار بنا کر خلافت پر اپنے حق کو ثابت کیا ہے اور نص کا زکر نہیں کیا۔اس کے علاوہ امام علی عہ کا خلافت کی نامزدگی کے لیے ہونے والے ہر طریقہ کار میں شامل ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے۔اہلیبیت عہ کے خاندان کے مختلف لوگوں نے امامت کا دعویٰ کیا۔
اس کے علاوہ آغا صاحب تقلید غیر مشروط کے مخالف ہیں۔
توسل کے مخالف ہیں۔
متعہ کو غلط اور حرام سمجھتے ہیں۔
تقیہ کو درست نہیں سمجھتے۔
امام مھدی سے متعلق روایات کو صحیح نہیں سمجھتے۔
قبروں پہ تعمیرات کو درست نہیں سمجھتے۔
فرقہ کی بجائے صرف اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔
توحید پہ بہت زور دیتے ہیں۔
خلفاءراشدین کے دور کو بہترین اسلامی دور قرار دیتے ہیں۔
خلفاءواصحاب رسول پر سب و شتم اور تبراء و لعن کو جائز نہیں سمجھتے۔
علم،ذوالجناح،زنجیر زنی اور دیگر رسومات عزاداری کو بھی غیر شرعی سمجھتے ہیں۔

علمی و ادبی خدمات

آغا سید علی شرف الدین موسوی کی لکھی گئی کتابوں کے نام یہ ہیں۔
قرآن سے پوچھو
انبیاء قرآن(محمد مسطفی)
مکتب تشیع اور قرآن
سوالات و جوابات معارف قرآن
قرآن اور مستشرقین
قرآن میں مذکر و مونث
قرآن میں شعر و شعراء
انبیاء قرآن(آدم،نوح،ابراہیم)
انبیاء قرآن(موسی ،عیسی)
قرآن میں امام و امت
تفسیر عاشورا
تفسیر سیاسی قیام امام حسین
قیام امام حسین کا جغرافیائی جائزہ
اسرار قیام امام حسین
عزاداری کیوں؟
انتخاب مصائب۔ترجیحات-ترمیمات
مثالی عزاداری کیسے منائیں؟
عنوان عاشورا
قیام امام حسین غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں
معجم کتب مولفین امام حسین
حج و عمرہ قرآن و سنت کی روشنی میں
عقائد و رسومات شیعہ
مسجد
آمریت کے خلاف آئمہ طاہرین کی جدو جہد
افق گفتگو
مدارس دینی و حوزات علمیہ پر نگارشات
ہماری ثقافت و سیاست کیا ہے؟اور کیا ہونی چاہیے؟
شکوؤں کے جواب
مجلہ اعتقاد
شکوہ جواب شکوہ
فصل جواب
جواب سے لاجواب
عوامی عدالت کے شمارے
مجلہ فصلنامہ عدالت
موضوعات متنوعہ
تعدد قرآت مترادف تحریفات
فرقوں میں جذور شرک و الحاد
ادوار تاریخ اسلام


تنقید

آپ کے کچھ مسلکی مخالفین آپ کو امت کے لیے فتنہ گردانتے ہیں۔ ناقدین کی نظر میں آپ متنازعہ شخصیات میں سے ہیں ,دقائق اسلام نامی ، کتاب میں آیت اللہ محمد حسین نجفی نے آپ پر عصمت آئمہ،امام مہدی اور تقلید کے حوالے سے آپ کے نظریات کی وجہ سے تنقید کی۔
کچھ علماء کرام آپ کے امام مہدی سے متعلق نظریات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
اتحاد امت کی کوششوں اور سنی علماء سے اچھے تعلقات کی بناء پر اہل سنت مخالف گروہوں نے ان پر تنقید کی۔
اماموں کی عصمت اور منصوص من اللہ کا انکار کی وجہ سے بعض علماء اہل تشیع نے آپ کو اہل تشیع سے خارج قرار دیا۔

نوٹ:آغا صاھب کی کتابوں کی تعداد 70 تک ہو گئی ہیں۔

آغا صاحب سے متعلق مزید معلومات یا گوشہ اگر آپ جانتے ہیں تو کمنٹ میں ذکر کریں تاکہ اس کو مزید بہتر کیا جا سکے۔جزاک اللہ

الحمد للہ علی ما ھدانا۔
والسلام

صحابہ کرام قرآنی آیات کی روشنی میں

"حمد و ثناء اس ذات کے لئے لائق سزاوار ہے جسے ہمیں نبی کریم ص کی دعوت میں سبقت و حدت میں،خلوت و جلوت میں انیس مہاجر و مجاہد ایثار و قربان ہونے والوں سے نفرت و بیزار کرنے والوں میں شمار نہیں کیا۔جن کی شان میں یہ آیات ہیں:

وَمِنَ ٱلْأَعْرَ‌ابِ مَن يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ‌ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُ‌بَـٰتٍ عِندَ ٱللَّهِ وَصَلَوَ‌ٰتِ ٱلرَّ‌سُولِ ۚ أَلَآ إِنَّهَا قُرْ‌بَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ ٱللَّهُ فِى رَ‌حْمَتِهِۦٓ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ‌ۭ رَّ‌حِيمٌ ﴿٩٩ توبہ﴾
ان ہی اعراب میں وہ بھی ہیں جو ا للہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے انفاق کو خدا کی قربت اور رسول کی دعائے رحمت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور بیشک یہ ان کے لئے سامانِ قربت ہے عنقریب خدا انہیں اپنی رحمت میں داخل کرلے گا کہ وہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی ہے
وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَـٰجِرِ‌ينَ وَٱلْأَنصَارِ‌ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَـٰنٍ رَّ‌ضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَ‌ضُوا۟ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِ‌ى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ‌ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ ذَ‌ٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿ توبہ١٠٠﴾
اور مہاجرین و انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خدا سے راضی ہیں اور خدا نے ان کے لئے وہ باغات مہیا کئے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

إِنَّ ٱللَّهَ ٱشْتَرَ‌ىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَ‌ٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلْجَنَّةَ ۚ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِى ٱلتَّوْرَ‌ىٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ وَٱلْقُرْ‌ءَانِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِۦ مِنَ ٱللَّهِ ۚ فَٱسْتَبْشِرُ‌وا۟ بِبَيْعِكُمُ ٱلَّذِى بَايَعْتُم بِهِۦ ۚ وَذَ‌ٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿ توبہ١١١﴾
بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنّت کے عوض خریدلیا ہے کہ یہ لوگ راہ هخدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ وعدئہ برحق توریت ,انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنی عہد کا پورا کرنے والا کون ہوگا تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خوشیاں مناؤ جو تم نے خدا سے کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے

لَّقَد تَّابَ ٱللَّهُ عَلَى ٱلنَّبِىِّ وَٱلْمُهَـٰجِرِ‌ينَ وَٱلْأَنصَارِ‌ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُ فِى سَاعَةِ ٱلْعُسْرَ‌ةِ مِنۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِ‌يقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُۥ بِهِمْ رَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١١٧ توبہ﴾
بیشک خدا نے پیغمبر اور ان مہاجرین و انصار پر رحم کیا ہے جنہوں نے تنگی کے وقت میں پیغمبر کا ساتھ دیا ہے جب کہ ایک جماعت کے دلوں میں کجی پیدا ہورہی تھی پھر خدا نے ان کی توبہ کو قبول کرلیا کہ وہ ان پر بڑا ترس کھانے والا اور مہربانی کرنے والا ہے

وَلَا يُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَ‌ةً وَلَا كَبِيرَ‌ةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ ٱللَّهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿١٢١توبہ ﴾
اور یہ کوئی چھوٹ یا بڑا خرچ راسِ خدا میں نہیں کرتے ہیں اور نہ کسی وادی کو طے کرتے ہیں مگر یہ کہ اسے بھی ان کے حق میں لکھ دیا جاتا ہے تاکہ خدا انہیں ان کے اعمال سے بہتر جزا عطا کرسکے

لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿ سورہ حشر٨﴾
یہ مال ان مہاجر فقرائ کے لئے بھی ہے جنہیں ان کے گھروں اور اموال سے نکال باہر کردیا گیا ہے اور وہ صرف خدا کے فضل اور اس کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خدا و رسول کی مدد کرنے والے ہیں کہ یہی لوگ دعوائے ایمان میں سچے

ابتدائے اسلما کے کٹھن دور میں انہی ذوات نے انتہائی فراخدلی اور حوصلے کے ساتھ نبی کریم کا ساتھ دیا۔یہی وہ ذوات تھیں جو بغیر کسی لالچ اپنی جان دینے کیلے فراخدلی سے آگے بڑھیں اور درخت کے نیچے رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی جس پر اللہ تبارک وتعالی نے ان کی شان میں یہ آیت نازل کی۔

جاری ہوں گی اور جو روگردانی کرے گا وہ اسے دردناک عذاب کی سزا دے گا
لَّقَدْ رَ‌ضِىَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَ‌ةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَـٰبَهُمْ فَتْحًا قَرِ‌يبًا ﴿١٨فتح﴾
یقینا خدا صاحبانِ ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انہیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی۔

رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ ۔(سورہبینہ آیت 8)
اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے۔

"
(کتاب اٹھو قرآن کا دفاع کرو 21 و 22 آغا علی شرف الدین علی آبادی)

خلفائے راشدین

"ایک انصاف پسند مسلمان کو اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ جو ہستیاں اس منصب پر یک بعد دیگرے آئیں وہ انہیں افراد میں سے ہیں جنہوں نے اسلام کے شروع ہوتے ہی یک بعد دیگر ایمان بہ نبوت و رسالت محمد پر پیعت کی،جنہوں نے نبی کریم ص کے فرمان پر اللہ کی راہ میں خانہ و آشیانہ و عزیز و اقارب اور والدین و اولاد چھوڑ کر دیار اجنبی میں بے سر و سامانی کے عالم میں ہجرت کی۔اللہ تعالی نے کثیر بار اپنی کتاب میں ان کی مدح سرائی کی ہے جنہون نے اپنے خانہ و آشیانہ کو اسلام کی خاطر خیر باد کہا ۔
سلام ہو ان انصار پر جنہوں نے مہاجرین کی معاونت و ہمکاری میں بے نظیر مثالیں قائم کیں۔
رضی اللہ عنھم و رضو عنہ (سورہ بینہ آیت 8)

اگر نبی کسی سفر پر جاتے تو انہیں کو اپنی جگہ پر معین فرماتے اور بعد میں انہیں میں سے یکے بعد دیگرے اس مقام پر فائز ہوتے۔

ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی ججھک نہیں ہونی چاہیے کہ پیغمبر اسلام کے بعد خلفائے راشدین کا دور خلافت ہمارے لئے 1400 سال گزرنے کے بعد اب بھی عدالت و انصاف اور صداقت کے حوالے سے ستاروں کی مانند روشن و تابناک اور بہترین و منفرد دور حکومت ہے،چنانچہ فلیسوف اسلام و شرق شہید محمد باقر الصدر نے فرمایا:

"اس 30 سالہ حکومت اسلامی کے بے مثال و بے نظیر ہونے کے بارے میں ہمیں اعتراف کرنے میں کوئی جھجک یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔"
(شہید محمد باقر الصدر،فدک فی التاریخ)

مفکر بزرگ مرحوم مہدی شمس الدین رئیس مجلس اعلی شیعی لبنان اسلامی سالانہ برسی کے موقع پر دئے گئے خطاب میں جسے مجلہ المنطق صادر از لبنان نے شائع کیا ہے فرماتے ہیں کہ:

" بنی امیہ و بنی عباس سلاطین صفوی ،عثمانی اور آل بویہ کی بہ نسبت خلفائے راشدین کے دور حکومت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔خلیفہ دوئم کی فارس پر لشکر کشی کے ثمرات میں سے ہے کہ اس وقت ہم یہاں پر (ایران) جمع ہیں۔"

لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ذوات کا انتخاب کسی اصول و ضوابط کے تحت انجام نہیں پایا چنانچہ خلیفہ دوم کا تصریح ہے امت میں قرآن و سنت و سیرت رسول کے ہوتے ہوئے جانشین رسول کے انتخاب میں بے ضابطگیوں کا پایا جانا ایک حسرت ہے اور یہ حسرت ہمیشہ رہے گی۔

لہذا ہم یہاں واشگاف الفاظ میں یہ واضح کرتے ہیں کہ ان خلفاء سے دشمنی علی و اہل بیت ع سے محبت کا اظہار نہیں بلکہ ان سے دشمنی اسلام و قرآن و محمد اور اہل بیت سے دشمنی ہے۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جو لوگ شیخین کو عداوت و نفرت اور سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ اسلام میں کفر و الحاد اور شرک کو ہی فروغ دیا ہے۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انہیں اسلام و قرآن سے دشمنی ہے لیکن ان کا یہ کہنا کہ:

"اللہ اور اس کے رسول کو پتہ نہیں چلا کہ ان کے دلوں میں کفر و بت پرستی اور ہوس اقتدار چھپا تھا" اس سے بڑی جسارت اور اہانت اللہ اور اس کے رسول کی شان میں نہیں ہوسکتی۔کیا ایسے لوگ اللہ و رسول سے زیادہ دور اندیش بنتے ہیں لیکن ان کی اس دور اندیشی کا دعوی نبی کریم ص کی شان میں تطبیق نہیں ہوتا کیونکہ آپ ص نے بار بار انہیں عزت و افتخار بخشا ہے۔

کیا یہ افراد خلفائے مسلمین حضرت ابوبکر رض،عمر رض،عثمان رض اور علی ع کے دور خلافت جیسا کوئی نمونہ لا سکتے ہیں تاکہ ہم اسے تمام عالمین اسلام کے سامنے پیش کر سکیں۔؟؟؟"

(کتاب اٹھو قرآن کا دفاع کرو 23،24صفحات ، آغا علی شرف الدین علی آبادی)
Photo: ‎"ایک انصاف پسند مسلمان کو اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ جو ہستیاں اس منصب پر یک بعد دیگرے آئیں وہ انہیں افراد میں سے ہیں جنہوں نے اسلام کے شروع ہوتے ہی یک بعد دیگر ایمان بہ نبوت و رسالت محمد پر پیعت کی،جنہوں نے نبی کریم ص کے فرمان پر اللہ کی راہ میں خانہ و آشیانہ و عزیز و اقارب اور والدین و  اولاد چھوڑ کر دیار اجنبی میں بے سر و سامانی کے عالم میں ہجرت کی۔اللہ تعالی نے کثیر بار اپنی کتاب میں ان کی مدح سرائی کی ہے جنہون نے اپنے خانہ و آشیانہ کو اسلام کی خاطر خیر باد کہا ۔
سلام ہو ان انصار پر جنہوں نے مہاجرین کی معاونت و ہمکاری میں بے نظیر مثالیں قائم کیں۔
رضی اللہ عنھم و رضو عنہ (سورہ بینہ آیت 8)

اگر نبی کسی سفر پر جاتے تو انہیں کو اپنی جگہ پر معین فرماتے اور بعد میں انہیں میں سے یکے بعد دیگرے اس مقام پر فائز ہوتے۔

ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی ججھک نہیں ہونی چاہیے کہ  پیغمبر اسلام کے بعد خلفائے راشدین کا دور خلافت ہمارے لئے 1400 سال گزرنے کے بعد اب بھی عدالت و انصاف اور صداقت کے حوالے سے ستاروں کی مانند روشن و تابناک اور بہترین و منفرد دور حکومت ہے،چنانچہ فلیسوف اسلام  و شرق شہید محمد باقر الصدر نے فرمایا:

"اس 30 سالہ حکومت اسلامی کے  بے مثال و بے نظیر ہونے کے بارے میں ہمیں اعتراف کرنے میں کوئی جھجک یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔"
(شہید محمد باقر الصدر،فدک فی التاریخ)

مفکر بزرگ مرحوم مہدی شمس الدین رئیس مجلس اعلی شیعی لبنان اسلامی سالانہ برسی کے موقع پر دئے گئے خطاب میں جسے مجلہ المنطق صادر از لبنان نے شائع کیا ہے فرماتے ہیں کہ:

"  بنی امیہ و بنی عباس  سلاطین صفوی ،عثمانی اور آل بویہ کی بہ نسبت خلفائے راشدین کے دور حکومت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔خلیفہ دوئم کی فارس پر لشکر کشی کے ثمرات میں سے ہے کہ اس وقت ہم یہاں پر (ایران) جمع ہیں۔"

لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ذوات کا انتخاب کسی اصول و ضوابط کے تحت انجام نہیں پایا چنانچہ خلیفہ دوم کا تصریح ہے امت میں قرآن و سنت و سیرت رسول کے ہوتے ہوئے جانشین رسول کے انتخاب میں بے ضابطگیوں کا پایا جانا ایک حسرت ہے اور یہ حسرت ہمیشہ رہے گی۔

لہذا ہم یہاں واشگاف الفاظ میں یہ واضح کرتے ہیں کہ ان خلفاء سے دشمنی علی و اہل بیت ع سے محبت کا اظہار نہیں بلکہ ان سے دشمنی اسلام و قرآن و محمد اور اہل بیت سے دشمنی ہے۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جو لوگ شیخین کو عداوت و نفرت  اور سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ اسلام میں کفر و الحاد اور شرک کو ہی فروغ دیا ہے۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انہیں اسلام و قرآن سے دشمنی ہے لیکن ان کا یہ کہنا کہ:

"اللہ اور اس کے رسول کو پتہ نہیں چلا کہ ان کے دلوں میں کفر و بت پرستی اور ہوس اقتدار چھپا تھا" اس سے بڑی جسارت اور اہانت اللہ اور اس کے رسول کی شان میں نہیں ہوسکتی۔کیا ایسے لوگ اللہ و رسول سے زیادہ دور اندیش بنتے ہیں لیکن ان کی اس دور اندیشی کا دعوی نبی کریم ص کی شان میں تطبیق نہیں ہوتا کیونکہ آپ ص نے بار بار انہیں عزت و افتخار بخشا ہے۔

کیا یہ افراد خلفائے مسلمین حضرت ابوبکر رض،عمر رض،عثمان رض اور علی ع کے دور خلافت جیسا کوئی نمونہ لا سکتے ہیں تاکہ ہم اسے تمام عالمین اسلام کے سامنے پیش کر سکیں۔؟؟؟"

(کتاب اٹھو قرآن کا دفاع کرو 23،24صفحات ، آغا علی شرف الدین علی آبادی)‎