Friday 27 December 2013











اصلاح امت-علی شرف الدین بلتستانی


علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کا مختصر تعارف

علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی ،بلتستان کے علاقہ شگر کے ایک گاؤں علی آباد میں 1938 عیسوی میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک دیندار اور شریف شیعہ گھرانے سے تھا۔علامہ شرف الدین موسوی کا خاندان سادات سے ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نام کے آخر میں "موسوی" لکھا جاتا ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی۔قرآن اور دیگر شیعہ کتب حدیث و تاریخ پر زمانہ طالب علمی میں ہی دسترس حاصل کیا۔آپ چونکہ ایک خالص شیعہ اثنا عشری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے پاکستان سے بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلے ایران کا رخ کیا۔
آپ 1955 میں ایران پہنچے جہاں آپ نے مشہور و معروف شیعہ درسگاہ "حوزہ علمیہ نجف" میں داخلہ لیا۔حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دواران آپ نے وہاں کے نساب میں قرآن کو لازمی مضمون کے طور پر شامل نہ کرنے پر شکایت کی۔نجف اشرف میں آپ کے استاد آیت اللہ صادقی تہرانی تھے جو خود قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے پر جوش حامی تھے۔اس کے علاوہ آپ نے آیت اللہ باقر صدر سے بھی شرف تلمذ ھاصل کیا۔
اس کے بعد آپ نے عراق کا بھی رخ کیا،تاکہ اسلامی علوم کو حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔چنانچہ ایران و عراق سے اسلامی علوم پہ دسترس حاصل ہونے کے بعد آپ نے 12 سال بعد1967-68 میں پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔
سر زمین پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان"کی بنیاد رکھی۔اس ادارے کے تحت انہوں نے مذھب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔
انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔انہوں نے پاکستان میں امام مھدی سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب کو بھی عام کیا ،ان کتابوں میں "شیعت کا آغاز کب اور کیسے،تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا،فلسفہ امامت،مذہب اہل بیت،شب ہاے پشاور،اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں،فلسفہ امامت،،اس کے علاوہ دعائے ندبہ وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔اس سیمینار میں ملک کے علماء و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔
1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا،جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔
آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ علی شرف الدین موسوی ان کا شمار اس دور کے چوٹی کے علماء مین ہونے لگا اور شیعہ اثنا عشری کے مرکزی قائدین میں آپ کا شمار ہوگیا۔چنانچہ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی شیعہ مسلک کی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔
علامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی اللولو والمرجان اور حسین شناسی جیسی کتب شایع کیں۔اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ عزاداری کیوں،انٹخاب مصائب امام حسین،قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چناچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ اور شیعہ اہل بیت اور موضوعات متنوعہ لکھی۔اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔چنانچہ آغا صاحب کے ان بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علماء ان کے مخالف ہو گئے۔بہت سے علماء نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔چنانچہ آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔غرض آج بھی آگا صاحب اپنے موقف پر قائم ہے اور شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کراتا ہے۔آج بھی آغا صاحب چیلنج کرتے ہیں کہ اگر میرا موقف غلط ہے تو میری زندگی میں ہی دلائل سے جواب دیں نہ کہ ڈنڈے کے زور پر ان کو عقائد سے دستبردار ہونے کیلے کہا جائے۔بلاشک و شبہ آغا صاحب ایک دلیر اور منصف مزاج شخصیت ہے،جن کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اب "50" پچاس کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ان کی اک اک کتاب سے حق و صداقت کی بو آتی ہے۔آج بھی ان کا اعلان ہے کہ "صرف قرآن و سنت ہی میرا دین ہے۔اسلام کے سوا فرقوں سے مجھےنفرت ہے۔اللہ کی وحدانیت اور توحید سے مجھے مھبت ہے اور رسول ختم نبوت اور سنت سے مجھے محبت ہے،اہل بیت کا میں تا بعدار اور رسول اللہ کے سفر و حضر کے ساتھیوں کو مسلمان مانتا ہوں اور ان کو میں کافر نہیں کہ سکتا۔شرک و بدعات اور خرافات سے مجھے نفرت اور کراہت ہے۔"۔

علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کا مختصر تعارف

علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی ،بلتستان کے علاقہ شگر کے ایک گاؤں علی آباد میں 1938 عیسوی میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک دیندار اور شریف شیعہ گھرانے سے تھا۔علامہ شرف الدین موسوی کا خاندان سادات سے ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نام کے آخر میں "موسوی" لکھا جاتا ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی۔قرآن اور دیگر شیعہ کتب حدیث و تاریخ پر زمانہ طالب علمی میں ہی دسترس حاصل کیا۔آپ چونکہ ایک خالص شیعہ اثنا عشری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے پاکستان سے بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلے ایران کا رخ کیا۔
آپ 1955 میں ایران پہنچے جہاں آپ نے مشہور و معروف شیعہ درسگاہ "حوزہ علمیہ نجف" میں داخلہ لیا۔حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دواران آپ نے وہاں کے نساب میں قرآن کو لازمی مضمون کے طور پر شامل نہ کرنے پر شکایت کی۔نجف اشرف میں آپ کے استاد آیت اللہ صادقی تہرانی تھے جو خود قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے پر جوش حامی تھے۔اس کے علاوہ آپ نے آیت اللہ باقر صدر سے بھی شرف تلمذ ھاصل کیا۔
اس کے بعد آپ نے عراق کا بھی رخ کیا،تاکہ اسلامی علوم کو حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔چنانچہ ایران و عراق سے اسلامی علوم پہ دسترس حاصل ہونے کے بعد آپ نے 12 سال بعد1967-68 میں پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔
سر زمین پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان"کی بنیاد رکھی۔اس ادارے کے تحت انہوں نے مذھب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔
انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔انہوں نے پاکستان میں امام مھدی سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب کو بھی عام کیا ،ان کتابوں میں "شیعت کا آغاز کب اور کیسے،تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا،فلسفہ امامت،مذہب اہل بیت،شب ہاے پشاور،اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں،فلسفہ امامت،،اس کے علاوہ دعائے ندبہ وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔اس سیمینار میں ملک کے علماء و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔
1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا،جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔
آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ علی شرف الدین موسوی ان کا شمار اس دور کے چوٹی کے علماء مین ہونے لگا اور شیعہ اثنا عشری کے مرکزی قائدین میں آپ کا شمار ہوگیا۔چنانچہ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی شیعہ مسلک کی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔
علامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی اللولو والمرجان اور حسین شناسی جیسی کتب شایع کیں۔اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ عزاداری کیوں،انٹخاب مصائب امام حسین،قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چناچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ اور شیعہ اہل بیت اور موضوعات متنوعہ لکھی۔اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔چنانچہ آغا صاحب کے ان بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علماء ان کے مخالف ہو گئے۔بہت سے علماء نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔چنانچہ آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔غرض آج بھی آگا صاحب اپنے موقف پر قائم ہے اور شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کراتا ہے۔آج بھی آغا صاحب چیلنج کرتے ہیں کہ اگر میرا موقف غلط ہے تو میری زندگی میں ہی دلائل سے جواب دیں نہ کہ ڈنڈے کے زور پر ان کو عقائد سے دستبردار ہونے کیلے کہا جائے۔بلاشک و شبہ آغا صاحب ایک دلیر اور منصف مزاج شخصیت ہے،جن کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اب "50" پچاس کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ان کی اک اک کتاب سے حق و صداقت کی بو آتی ہے۔آج بھی ان کا اعلان ہے کہ "صرف قرآن و سنت ہی میرا دین ہے۔اسلام کے سوا فرقوں سے مجھےنفرت ہے۔اللہ کی وحدانیت اور توحید سے مجھے مھبت ہے اور رسول ختم نبوت اور سنت سے مجھے محبت ہے،اہل بیت کا میں تا بعدار اور رسول اللہ کے سفر و حضر کے ساتھیوں کو مسلمان مانتا ہوں اور ان کو میں کافر نہیں کہ سکتا۔شرک و بدعات اور خرافات سے مجھے نفرت اور کراہت ہے۔"۔

علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کا مختصر تعارف

علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی ،بلتستان کے علاقہ شگر کے ایک گاؤں علی آباد میں 1938 عیسوی میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک دیندار اور شریف شیعہ گھرانے سے تھا۔علامہ شرف الدین موسوی کا خاندان سادات سے ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نام کے آخر میں "موسوی" لکھا جاتا ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی۔قرآن اور دیگر شیعہ کتب حدیث و تاریخ پر زمانہ طالب علمی میں ہی دسترس حاصل کیا۔آپ چونکہ ایک خالص شیعہ اثنا عشری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے پاکستان سے بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلے ایران کا رخ کیا۔
آپ 1955 میں ایران پہنچے جہاں آپ نے مشہور و معروف شیعہ درسگاہ "حوزہ علمیہ نجف" میں داخلہ لیا۔حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دواران آپ نے وہاں کے نساب میں قرآن کو لازمی مضمون کے طور پر شامل نہ کرنے پر شکایت کی۔نجف اشرف میں آپ کے استاد آیت اللہ صادقی تہرانی تھے جو خود قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے پر جوش حامی تھے۔اس کے علاوہ آپ نے آیت اللہ باقر صدر سے بھی شرف تلمذ ھاصل کیا۔
اس کے بعد آپ نے عراق کا بھی رخ کیا،تاکہ اسلامی علوم کو حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔چنانچہ ایران و عراق سے اسلامی علوم پہ دسترس حاصل ہونے کے بعد آپ نے 12 سال بعد1967-68 میں پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔
سر زمین پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان"کی بنیاد رکھی۔اس ادارے کے تحت انہوں نے مذھب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔
انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔انہوں نے پاکستان میں امام مھدی سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب کو بھی عام کیا ،ان کتابوں میں "شیعت کا آغاز کب اور کیسے،تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا،فلسفہ امامت،مذہب اہل بیت،شب ہاے پشاور،اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں،فلسفہ امامت،،اس کے علاوہ دعائے ندبہ وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔اس سیمینار میں ملک کے علماء و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔
1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا،جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔
آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ علی شرف الدین موسوی ان کا شمار اس دور کے چوٹی کے علماء مین ہونے لگا اور شیعہ اثنا عشری کے مرکزی قائدین میں آپ کا شمار ہوگیا۔چنانچہ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی شیعہ مسلک کی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔
علامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی اللولو والمرجان اور حسین شناسی جیسی کتب شایع کیں۔اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ عزاداری کیوں،انٹخاب مصائب امام حسین،قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چناچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ اور شیعہ اہل بیت اور موضوعات متنوعہ لکھی۔اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔چنانچہ آغا صاحب کے ان بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علماء ان کے مخالف ہو گئے۔بہت سے علماء نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔چنانچہ آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔غرض آج بھی آگا صاحب اپنے موقف پر قائم ہے اور شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کراتا ہے۔آج بھی آغا صاحب چیلنج کرتے ہیں کہ اگر میرا موقف غلط ہے تو میری زندگی میں ہی دلائل سے جواب دیں نہ کہ ڈنڈے کے زور پر ان کو عقائد سے دستبردار ہونے کیلے کہا جائے۔بلاشک و شبہ آغا صاحب ایک دلیر اور منصف مزاج شخصیت ہے،جن کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اب "50" پچاس کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ان کی اک اک کتاب سے حق و صداقت کی بو آتی ہے۔آج بھی ان کا اعلان ہے کہ "صرف قرآن و سنت ہی میرا دین ہے۔اسلام کے سوا فرقوں سے مجھےنفرت ہے۔اللہ کی وحدانیت اور توحید سے مجھے مھبت ہے اور رسول ختم نبوت اور سنت سے مجھے محبت ہے،اہل بیت کا میں تا بعدار اور رسول اللہ کے سفر و حضر کے ساتھیوں کو مسلمان مانتا ہوں اور ان کو میں کافر نہیں کہ سکتا۔شرک و بدعات اور خرافات سے مجھے نفرت اور کراہت ہے۔"۔

علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کا مختصر تعارف

علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی ،بلتستان کے علاقہ شگر کے ایک گاؤں علی آباد میں 1938 عیسوی میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک دیندار اور شریف شیعہ گھرانے سے تھا۔علامہ شرف الدین موسوی کا خاندان سادات سے ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نام کے آخر میں "موسوی" لکھا جاتا ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی۔قرآن اور دیگر شیعہ کتب حدیث و تاریخ پر زمانہ طالب علمی میں ہی دسترس حاصل کیا۔آپ چونکہ ایک خالص شیعہ اثنا عشری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے پاکستان سے بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلے ایران کا رخ کیا۔
آپ 1955 میں ایران پہنچے جہاں آپ نے مشہور و معروف شیعہ درسگاہ "حوزہ علمیہ نجف" میں داخلہ لیا۔حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دواران آپ نے وہاں کے نساب میں قرآن کو لازمی مضمون کے طور پر شامل نہ کرنے پر شکایت کی۔نجف اشرف میں آپ کے استاد آیت اللہ صادقی تہرانی تھے جو خود قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے پر جوش حامی تھے۔اس کے علاوہ آپ نے آیت اللہ باقر صدر سے بھی شرف تلمذ ھاصل کیا۔
اس کے بعد آپ نے عراق کا بھی رخ کیا،تاکہ اسلامی علوم کو حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔چنانچہ ایران و عراق سے اسلامی علوم پہ دسترس حاصل ہونے کے بعد آپ نے 12 سال بعد1967-68 میں پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔
سر زمین پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان"کی بنیاد رکھی۔اس ادارے کے تحت انہوں نے مذھب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔
انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔انہوں نے پاکستان میں امام مھدی سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب کو بھی عام کیا ،ان کتابوں میں "شیعت کا آغاز کب اور کیسے،تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا،فلسفہ امامت،مذہب اہل بیت،شب ہاے پشاور،اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں،فلسفہ امامت،،اس کے علاوہ دعائے ندبہ وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔اس سیمینار میں ملک کے علماء و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔
1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا،جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔
آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ علی شرف الدین موسوی ان کا شمار اس دور کے چوٹی کے علماء مین ہونے لگا اور شیعہ اثنا عشری کے مرکزی قائدین میں آپ کا شمار ہوگیا۔چنانچہ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی شیعہ مسلک کی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔
علامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی اللولو والمرجان اور حسین شناسی جیسی کتب شایع کیں۔اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ عزاداری کیوں،انٹخاب مصائب امام حسین،قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چناچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ اور شیعہ اہل بیت اور موضوعات متنوعہ لکھی۔اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔چنانچہ آغا صاحب کے ان بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علماء ان کے مخالف ہو گئے۔بہت سے علماء نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔چنانچہ آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔غرض آج بھی آگا صاحب اپنے موقف پر قائم ہے اور شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کراتا ہے۔آج بھی آغا صاحب چیلنج کرتے ہیں کہ اگر میرا موقف غلط ہے تو میری زندگی میں ہی دلائل سے جواب دیں نہ کہ ڈنڈے کے زور پر ان کو عقائد سے دستبردار ہونے کیلے کہا جائے۔بلاشک و شبہ آغا صاحب ایک دلیر اور منصف مزاج شخصیت ہے،جن کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اب "50" پچاس کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ان کی اک اک کتاب سے حق و صداقت کی بو آتی ہے۔آج بھی ان کا اعلان ہے کہ "صرف قرآن و سنت ہی میرا دین ہے۔اسلام کے سوا فرقوں سے مجھےنفرت ہے۔اللہ کی وحدانیت اور توحید سے مجھے مھبت ہے اور رسول ختم نبوت اور سنت سے مجھے محبت ہے،اہل بیت کا میں تا بعدار اور رسول اللہ کے سفر و حضر کے ساتھیوں کو مسلمان مانتا ہوں اور ان کو میں کافر نہیں کہ سکتا۔شرک و بدعات اور خرافات سے مجھے نفرت اور کراہت ہے۔"۔

علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کا مختصر تعارف

علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی ،بلتستان کے علاقہ شگر کے ایک گاؤں علی آباد میں 1938 عیسوی میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک دیندار اور شریف شیعہ گھرانے سے تھا۔علامہ شرف الدین موسوی کا خاندان سادات سے ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نام کے آخر میں "موسوی" لکھا جاتا ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی۔قرآن اور دیگر شیعہ کتب حدیث و تاریخ پر زمانہ طالب علمی میں ہی دسترس حاصل کیا۔آپ چونکہ ایک خالص شیعہ اثنا عشری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے پاکستان سے بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلے ایران کا رخ کیا۔
آپ 1955 میں ایران پہنچے جہاں آپ نے مشہور و معروف شیعہ درسگاہ "حوزہ علمیہ نجف" میں داخلہ لیا۔حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دواران آپ نے وہاں کے نساب میں قرآن کو لازمی مضمون کے طور پر شامل نہ کرنے پر شکایت کی۔نجف اشرف میں آپ کے استاد آیت اللہ صادقی تہرانی تھے جو خود قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے پر جوش حامی تھے۔اس کے علاوہ آپ نے آیت اللہ باقر صدر سے بھی شرف تلمذ ھاصل کیا۔
اس کے بعد آپ نے عراق کا بھی رخ کیا،تاکہ اسلامی علوم کو حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔چنانچہ ایران و عراق سے اسلامی علوم پہ دسترس حاصل ہونے کے بعد آپ نے 12 سال بعد1967-68 میں پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔
سر زمین پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان"کی بنیاد رکھی۔اس ادارے کے تحت انہوں نے مذھب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔
انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔انہوں نے پاکستان میں امام مھدی سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب کو بھی عام کیا ،ان کتابوں میں "شیعت کا آغاز کب اور کیسے،تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا،فلسفہ امامت،مذہب اہل بیت،شب ہاے پشاور،اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں،فلسفہ امامت،،اس کے علاوہ دعائے ندبہ وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔اس سیمینار میں ملک کے علماء و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔
1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا،جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔
آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ علی شرف الدین موسوی ان کا شمار اس دور کے چوٹی کے علماء مین ہونے لگا اور شیعہ اثنا عشری کے مرکزی قائدین میں آپ کا شمار ہوگیا۔چنانچہ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی شیعہ مسلک کی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔
علامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی اللولو والمرجان اور حسین شناسی جیسی کتب شایع کیں۔اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ عزاداری کیوں،انٹخاب مصائب امام حسین،قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چناچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ اور شیعہ اہل بیت اور موضوعات متنوعہ لکھی۔اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔چنانچہ آغا صاحب کے ان بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علماء ان کے مخالف ہو گئے۔بہت سے علماء نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔چنانچہ آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔غرض آج بھی آگا صاحب اپنے موقف پر قائم ہے اور شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کراتا ہے۔آج بھی آغا صاحب چیلنج کرتے ہیں کہ اگر میرا موقف غلط ہے تو میری زندگی میں ہی دلائل سے جواب دیں نہ کہ ڈنڈے کے زور پر ان کو عقائد سے دستبردار ہونے کیلے کہا جائے۔بلاشک و شبہ آغا صاحب ایک دلیر اور منصف مزاج شخصیت ہے،جن کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اب "50" پچاس کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ان کی اک اک کتاب سے حق و صداقت کی بو آتی ہے۔آج بھی ان کا اعلان ہے کہ "صرف قرآن و سنت ہی میرا دین ہے۔اسلام کے سوا فرقوں سے مجھےنفرت ہے۔اللہ کی وحدانیت اور توحید سے مجھے مھبت ہے اور رسول ختم نبوت اور سنت سے مجھے محبت ہے،اہل بیت کا میں تا بعدار اور رسول اللہ کے سفر و حضر کے ساتھیوں کو مسلمان مانتا ہوں اور ان کو میں کافر نہیں کہ سکتا۔شرک و بدعات اور خرافات سے مجھے نفرت اور کراہت ہے۔"۔

علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کا مختصر تعارف

علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی ،بلتستان کے علاقہ شگر کے ایک گاؤں علی آباد میں 1938 عیسوی میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک دیندار اور شریف شیعہ گھرانے سے تھا۔علامہ شرف الدین موسوی کا خاندان سادات سے ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نام کے آخر میں "موسوی" لکھا جاتا ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی۔قرآن اور دیگر شیعہ کتب حدیث و تاریخ پر زمانہ طالب علمی میں ہی دسترس حاصل کیا۔آپ چونکہ ایک خالص شیعہ اثنا عشری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے پاکستان سے بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلے ایران کا رخ کیا۔
آپ 1955 میں ایران پہنچے جہاں آپ نے مشہور و معروف شیعہ درسگاہ "حوزہ علمیہ نجف" میں داخلہ لیا۔حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دواران آپ نے وہاں کے نساب میں قرآن کو لازمی مضمون کے طور پر شامل نہ کرنے پر شکایت کی۔نجف اشرف میں آپ کے استاد آیت اللہ صادقی تہرانی تھے جو خود قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے پر جوش حامی تھے۔اس کے علاوہ آپ نے آیت اللہ باقر صدر سے بھی شرف تلمذ ھاصل کیا۔
اس کے بعد آپ نے عراق کا بھی رخ کیا،تاکہ اسلامی علوم کو حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔چنانچہ ایران و عراق سے اسلامی علوم پہ دسترس حاصل ہونے کے بعد آپ نے 12 سال بعد1967-68 میں پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔
سر زمین پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان"کی بنیاد رکھی۔اس ادارے کے تحت انہوں نے مذھب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔
انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔انہوں نے پاکستان میں امام مھدی سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب کو بھی عام کیا ،ان کتابوں میں "شیعت کا آغاز کب اور کیسے،تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا،فلسفہ امامت،مذہب اہل بیت،شب ہاے پشاور،اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں،فلسفہ امامت،،اس کے علاوہ دعائے ندبہ وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔اس سیمینار میں ملک کے علماء و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔
1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا،جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔
آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ علی شرف الدین موسوی ان کا شمار اس دور کے چوٹی کے علماء مین ہونے لگا اور شیعہ اثنا عشری کے مرکزی قائدین میں آپ کا شمار ہوگیا۔چنانچہ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی شیعہ مسلک کی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔
علامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی اللولو والمرجان اور حسین شناسی جیسی کتب شایع کیں۔اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ عزاداری کیوں،انٹخاب مصائب امام حسین،قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چناچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ اور شیعہ اہل بیت اور موضوعات متنوعہ لکھی۔اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔چنانچہ آغا صاحب کے ان بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علماء ان کے مخالف ہو گئے۔بہت سے علماء نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔چنانچہ آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔غرض آج بھی آگا صاحب اپنے موقف پر قائم ہے اور شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کراتا ہے۔آج بھی آغا صاحب چیلنج کرتے ہیں کہ اگر میرا موقف غلط ہے تو میری زندگی میں ہی دلائل سے جواب دیں نہ کہ ڈنڈے کے زور پر ان کو عقائد سے دستبردار ہونے کیلے کہا جائے۔بلاشک و شبہ آغا صاحب ایک دلیر اور منصف مزاج شخصیت ہے،جن کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اب "50" پچاس کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ان کی اک اک کتاب سے حق و صداقت کی بو آتی ہے۔آج بھی ان کا اعلان ہے کہ "صرف قرآن و سنت ہی میرا دین ہے۔اسلام کے سوا فرقوں سے مجھےنفرت ہے۔اللہ کی وحدانیت اور توحید سے مجھے مھبت ہے اور رسول ختم نبوت اور سنت سے مجھے محبت ہے،اہل بیت کا میں تا بعدار اور رسول اللہ کے سفر و حضر کے ساتھیوں کو مسلمان مانتا ہوں اور ان کو میں کافر نہیں کہ سکتا۔شرک و بدعات اور خرافات سے مجھے نفرت اور کراہت ہے۔"۔

علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کا مختصر تعارف

علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی ،بلتستان کے علاقہ شگر کے ایک گاؤں علی آباد میں 1938 عیسوی میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک دیندار اور شریف شیعہ گھرانے سے تھا۔علامہ شرف الدین موسوی کا خاندان سادات سے ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نام کے آخر میں "موسوی" لکھا جاتا ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی۔قرآن اور دیگر شیعہ کتب حدیث و تاریخ پر زمانہ طالب علمی میں ہی دسترس حاصل کیا۔آپ چونکہ ایک خالص شیعہ اثنا عشری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے پاکستان سے بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلے ایران کا رخ کیا۔
آپ 1955 میں ایران پہنچے جہاں آپ نے مشہور و معروف شیعہ درسگاہ "حوزہ علمیہ نجف" میں داخلہ لیا۔حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دواران آپ نے وہاں کے نساب میں قرآن کو لازمی مضمون کے طور پر شامل نہ کرنے پر شکایت کی۔نجف اشرف میں آپ کے استاد آیت اللہ صادقی تہرانی تھے جو خود قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے پر جوش حامی تھے۔اس کے علاوہ آپ نے آیت اللہ باقر صدر سے بھی شرف تلمذ ھاصل کیا۔
اس کے بعد آپ نے عراق کا بھی رخ کیا،تاکہ اسلامی علوم کو حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔چنانچہ ایران و عراق سے اسلامی علوم پہ دسترس حاصل ہونے کے بعد آپ نے 12 سال بعد1967-68 میں پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔
سر زمین پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان"کی بنیاد رکھی۔اس ادارے کے تحت انہوں نے مذھب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔
انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔انہوں نے پاکستان میں امام مھدی سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب کو بھی عام کیا ،ان کتابوں میں "شیعت کا آغاز کب اور کیسے،تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا،فلسفہ امامت،مذہب اہل بیت،شب ہاے پشاور،اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں،فلسفہ امامت،،اس کے علاوہ دعائے ندبہ وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔اس سیمینار میں ملک کے علماء و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔
1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا،جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔
آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ علی شرف الدین موسوی ان کا شمار اس دور کے چوٹی کے علماء مین ہونے لگا اور شیعہ اثنا عشری کے مرکزی قائدین میں آپ کا شمار ہوگیا۔چنانچہ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی شیعہ مسلک کی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔
علامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی اللولو والمرجان اور حسین شناسی جیسی کتب شایع کیں۔اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ عزاداری کیوں،انٹخاب مصائب امام حسین،قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چناچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ اور شیعہ اہل بیت اور موضوعات متنوعہ لکھی۔اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔چنانچہ آغا صاحب کے ان بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علماء ان کے مخالف ہو گئے۔بہت سے علماء نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔چنانچہ آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔غرض آج بھی آگا صاحب اپنے موقف پر قائم ہے اور شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کراتا ہے۔آج بھی آغا صاحب چیلنج کرتے ہیں کہ اگر میرا موقف غلط ہے تو میری زندگی میں ہی دلائل سے جواب دیں نہ کہ ڈنڈے کے زور پر ان کو عقائد سے دستبردار ہونے کیلے کہا جائے۔بلاشک و شبہ آغا صاحب ایک دلیر اور منصف مزاج شخصیت ہے،جن کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اب "50" پچاس کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ان کی اک اک کتاب سے حق و صداقت کی بو آتی ہے۔آج بھی ان کا اعلان ہے کہ "صرف قرآن و سنت ہی میرا دین ہے۔اسلام کے سوا فرقوں سے مجھےنفرت ہے۔اللہ کی وحدانیت اور توحید سے مجھے مھبت ہے اور رسول ختم نبوت اور سنت سے مجھے محبت ہے،اہل بیت کا میں تا بعدار اور رسول اللہ کے سفر و حضر کے ساتھیوں کو مسلمان مانتا ہوں اور ان کو میں کافر نہیں کہ سکتا۔شرک و بدعات اور خرافات سے مجھے نفرت اور کراہت ہے۔"۔

علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کا مختصر تعارف

علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی ،بلتستان کے علاقہ شگر کے ایک گاؤں علی آباد میں 1938 عیسوی میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک دیندار اور شریف شیعہ گھرانے سے تھا۔علامہ شرف الدین موسوی کا خاندان سادات سے ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نام کے آخر میں "موسوی" لکھا جاتا ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی۔قرآن اور دیگر شیعہ کتب حدیث و تاریخ پر زمانہ طالب علمی میں ہی دسترس حاصل کیا۔آپ چونکہ ایک خالص شیعہ اثنا عشری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے پاکستان سے بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلے ایران کا رخ کیا۔
آپ 1955 میں ایران پہنچے جہاں آپ نے مشہور و معروف شیعہ درسگاہ "حوزہ علمیہ نجف" میں داخلہ لیا۔حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دواران آپ نے وہاں کے نساب میں قرآن کو لازمی مضمون کے طور پر شامل نہ کرنے پر شکایت کی۔نجف اشرف میں آپ کے استاد آیت اللہ صادقی تہرانی تھے جو خود قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے پر جوش حامی تھے۔اس کے علاوہ آپ نے آیت اللہ باقر صدر سے بھی شرف تلمذ ھاصل کیا۔
اس کے بعد آپ نے عراق کا بھی رخ کیا،تاکہ اسلامی علوم کو حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔چنانچہ ایران و عراق سے اسلامی علوم پہ دسترس حاصل ہونے کے بعد آپ نے 12 سال بعد1967-68 میں پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔
سر زمین پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان"کی بنیاد رکھی۔اس ادارے کے تحت انہوں نے مذھب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔
انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔انہوں نے پاکستان میں امام مھدی سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب کو بھی عام کیا ،ان کتابوں میں "شیعت کا آغاز کب اور کیسے،تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا،فلسفہ امامت،مذہب اہل بیت،شب ہاے پشاور،اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں،فلسفہ امامت،،اس کے علاوہ دعائے ندبہ وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔اس سیمینار میں ملک کے علماء و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔
1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا،جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔
آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ علی شرف الدین موسوی ان کا شمار اس دور کے چوٹی کے علماء مین ہونے لگا اور شیعہ اثنا عشری کے مرکزی قائدین میں آپ کا شمار ہوگیا۔چنانچہ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی شیعہ مسلک کی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔
علامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی اللولو والمرجان اور حسین شناسی جیسی کتب شایع کیں۔اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ عزاداری کیوں،انٹخاب مصائب امام حسین،قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چناچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ اور شیعہ اہل بیت اور موضوعات متنوعہ لکھی۔اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔چنانچہ آغا صاحب کے ان بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علماء ان کے مخالف ہو گئے۔بہت سے علماء نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔چنانچہ آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔غرض آج بھی آگا صاحب اپنے موقف پر قائم ہے اور شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کراتا ہے۔آج بھی آغا صاحب چیلنج کرتے ہیں کہ اگر میرا موقف غلط ہے تو میری زندگی میں ہی دلائل سے جواب دیں نہ کہ ڈنڈے کے زور پر ان کو عقائد سے دستبردار ہونے کیلے کہا جائے۔بلاشک و شبہ آغا صاحب ایک دلیر اور منصف مزاج شخصیت ہے،جن کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اب "50" پچاس کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ان کی اک اک کتاب سے حق و صداقت کی بو آتی ہے۔آج بھی ان کا اعلان ہے کہ "صرف قرآن و سنت ہی میرا دین ہے۔اسلام کے سوا فرقوں سے مجھےنفرت ہے۔اللہ کی وحدانیت اور توحید سے مجھے مھبت ہے اور رسول ختم نبوت اور سنت سے مجھے محبت ہے،اہل بیت کا میں تا بعدار اور رسول اللہ کے سفر و حضر کے ساتھیوں کو مسلمان مانتا ہوں اور ان کو میں کافر نہیں کہ سکتا۔شرک و بدعات اور خرافات سے مجھے نفرت اور کراہت ہے۔"۔

مولوی اسحاق اور علامہ شرف الدینموسوی بلتستانی


Saturday 21 December 2013

"اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے
اک ضرب ید اللہی،اک سجدہ شبیری

اقبال کے نزدیک اسلام کے دامن میں بس دو ہی چیزیں ہیں اک سجدہ شبیری،اک ضرب ید اللہی(حضرت علی کی جنگ)۔اس شعر کے مطابق یہ نظریہ نہ قرآن کے احکامات و تعلیمات میں سے ہے اور نہ ہی سنت پیغمبر اکرم یا اسوہ نبوی میں ہے۔اللہ نے جب اسلام کی تعلیمات و احکامات کی تکمیل کا اعلان فرمایا تو اس وقت سجدہ شبیری نام کی کوئی چیز دامن اسلام میں نہ تھی یہ شعر اگر اقبال یا جس کا ہے اس کے مطابق قرآن و سنت نبی اسلام میں شامل نہیں ہیں۔یہ شعر خیانت و کفر و الھاد کے کئی لفافوں مین پیش کیا گیا ہے گویا حضرت محمد،علی،فاطمہ زہراء،دیگر مہاجرین و انصار اور امام حسن کے سجدوں کی کوئی قیمت و ارزش نہیں نیز میدان کربلا میں خود امام حسین اور آپ کے عزیزان و انصار کی تلواروں کی بھی کوئی قیمت نہیں ہے۔

شاعر کے نزدیک قرآن و سنت تو اسلام میں ہیں ہی نہیں اگر آپ اس سچ کو مان لیں کہ اسلام دراصل احکامات و تعلیمات قرآن و سنت پیغمبر اکرم کا نام ہے تو پھر ہم سب مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنا پڑے گی۔لہذا شاعر نے لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل سے روکنے کیلے ایسی بات کو دامن اسلام کی زینت بنایا کہ صرف اس کا ذکر ہی کافی ہے عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔انہی اشعار کی پیروی کی وجہ سے امت مسلمہ گمراہی و بے دینی کے دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔اسی لئے قرآن کہتا ہے"شاعروں کے پیروکار گمراہ ہوتے ہیں"۔(الشعراء:224)

کیا اسلام کے مصادر و ماخذ اوہام و خیالات شعراء ہیں اور جو وہ کہیں وہی اسلام ہے۔وہ جھوٹ بولیں،حقائق کو تہ و بالا کریں،اس میں آزاد ہیں۔کیا اسلام میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے:
1-اسلام کے دامن میں صرف ضربت لگانا ہے۔
2-نماز،روزہ اور ھج نہیں ہے۔
3-زکوۃ و انفاق نہیں ہے۔
4-امر بالمعروف و نہی از منکر نہیں ۔
5-تعلیم و تربیت نہیں۔
6-مومنین و مومنات کو آپس میں موالات کا حکم نہیں۔
7-میاں بیوی،اولاد و والدین اور بہن بھائیوں کے حقوق نہیں۔
8-مرتکبین جرائم و موبقات کیلے سزائیں نہیں۔
9-ضربت تنہا ضربت علی نہیں ہے امام حسن اور خود امام حسین کی بھی ضربتیں ہیں۔محمد بن حنفیہ،حضرت حمزہ کی بھی ضربتیں ہیں،زبیر بن عوام کی ضربتیں ہیں،زید بن حارثہ کی بھی ضربتیں ہیں اسی طرح طلحی بن عبد اللہ کی بھی،عبد الرحمن بن عوف اور خالد بن ولید کی ضربتیں ہیں۔
10-کیا اقبال کو نماز پڑھنے والوں کے سجدے،رسول اللہ کا سجدہ،امیر المؤمنین کا سجدہ،فاطمہ زہراء کا سجدہ،وفادار اسلام ابوبکر،عثمان،عمر کا سجدہ،طلحہ،بلال اور مسجد نبوی میں نبی کی اقتدا میں نماز پڑھنے والوں کے سجدے،حجت الوداع مین آپ کی اقتدا مین نماز پڑھنے والوں کے سجدے دکھائی نہیں دیتے،یہ کون سا سجدہ ہے جو علامہ نے امام حسین کے لئے مختص کیا ہے جب کہ امام حسین کی تاریخ میں کسی ایسے سجدے کا ذکر نہیں آیا ہے۔"

(دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی۔۔۔۔علامہ علی شرف الدین موسوی بلتستانی )
"تشیع سے متعلق کتب جن میں مذہب اہل بیت از علامہ عبد الحسین شرف الدین ،شیعت کا آغاز دو جلد،مدائح اہل بیت کے ساتھ سیرت آئمہ پر تحقیقی جائزہ،قرآن اور مکتب تشیع جو خالص مذہب تشیع سے متعلق تھیں ہمارے پاس جوں کی توں انبار کی صورت میں پڑی ہیں جن پر گرد و غبار چھایا ہوا ہے۔جس سے مجھ پر چابت ہوا کہ یہ گروہ جعفر صادق کے شیعہ نہیں بلکہ جعفر کذاب یا گمنام جعفروں کے شیعہ ہیں۔ورنہ یہ میری کتابوں کو کراچی،لاہور اور اسلام آباد کے کتب کانوں کو میری اجازت کے بغیر چھاپنے کی اجازت نہ دیتے۔ہمیں غلط فہمی ہوئی یہ مسلمان شیعہ ہیں جو ایک مسلمان کی جان و مال و ناموس کے محافط ہوں،لیکن یہ وہ شیعہ علی نہیں جنہیں اسلامی حدود میں کسی مسیحی عورت کے زیورات چھن جانا بھی برداشت نہ ہو،یہ جعفر صادق کے بھی شیعہ نہیں جنہوں نے اپنی بیتی کا نام "عائشہ" رکھا ،جب کہ یہ شیعہ نام" عائشہ "کو صرف سب کے لئے استعمال کرتے ہیں۔"

(دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی۔۔۔۔علامہ علی شرف الدین موسوی بلتستانی )
"حضرت علی کے دور میں لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے۔اس وقت حضرت علی قرآن و سنت اور استحقاق و لیاقت اور امت کے انتخاب کے تحت خلیفہ برھق تھے۔میں اس حوالے سے شیعہ علی ہوں،اور معاویہ و خوارج کو باطل پر سمجھتا ہوں۔میں رائج فرقہ شیعہ سے خود کو الگ رکھنے کیلے خود کو شیعہ علی کہلواتا ہوں-اس لئے کہ حضرت علی قرآن و سنت کے تابع تھے۔یہاں اس وضاحت کی ضرورت ہے کہ رائج فرقہ شیعہ کو قرآن و سنت سے چڑ ہے،ان کے پاس کل دین علی اور کل عمل عزاداری ہے۔میں ان سے نہیں ہوں۔میرا دین اتباع قرآن و سنت تک محدود ہے۔
میں شیعہ سبائیہ،کیسانیہ،مختاریہ،سفاکیہ،خطابیہ،دیصانیہ،میمونیہ،قداحیہ،عماریہ ،عجلیہ،اس ماعیلیہ،بہریہ،مستعلیہ،نزاریہ،بنانیہ،صفویہ،شیخیہ،عمرانیہ نہ کبھی رہا نہ ہی ہونگا۔"
(دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی۔۔۔۔علامہ علی شرف الدین موسوی بلتستانی )
"حضرت علی کے دور میں لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے۔اس وقت حضرت علی قرآن و سنت اور استحقاق و لیاقت اور امت کے انتخاب کے تحت خلیفہ برھق تھے۔میں اس حوالے سے شیعہ علی ہوں،اور معاویہ و خوارج کو باطل پر سمجھتا ہوں۔میں رائج فرقہ شیعہ سے خود کو الگ رکھنے کیلے خود کو شیعہ علی کہلواتا ہوں-اس لئے کہ حضرت علی قرآن و سنت کے تابع تھے۔یہاں اس وضاحت کی ضرورت ہے کہ رائج فرقہ شیعہ کو قرآن و سنت سے چڑ ہے،ان کے پاس کل دین علی اور کل عمل عزاداری ہے۔میں ان سے نہیں ہوں۔میرا دین اتباع قرآن و سنت تک محدود ہے۔
میں شیعہ سبائیہ،کیسانیہ،مختاریہ،سفاکیہ،خطابیہ،دیصانیہ،میمونیہ،قداحیہ،عماریہ ،عجلیہ،اس ماعیلیہ،بہریہ،مستعلیہ،نزاریہ،بنانیہ،صفویہ،شیخیہ،عمرانیہ نہ کبھی رہا نہ ہی ہونگا۔"
(دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی۔۔۔۔علامہ علی شرف الدین موسوی بلتستانی )

Monday 16 December 2013

من گھڑت اور موضوع روایات

حدیث لولاک 275 موجوعات متن
انسان کسی اصول پر عمل کرے نہ کرے اصول اپنی جگہ اصول ہے چاہے آپ اصول و عقائد کو فروغ دین بنا کر پیش کریں یا
فروع دین کو اصول عقائد بنا کر پیش کریں جیسے ہمارے بزرگ علماء قائد ملت علامہ تقی شاہ وغیرہ کے ہاں اصول کو فروع،فروع کو اصول اور حرام کو مستحب آسانی سے بنایا جا سکتا ہے۔دف ڈھول خون ریزی جھوٹ پر مبنی مرثیے نوحے اصول دین میں  شامل کریں عزاداری کو اصول دین بنائیں تو یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آئے گا اگر آپ توحید کی فروع دین میں بحث کریں تو سمجھ میں نہیں آئے گا چاہے اس پر سب مجتھدین کا فتوی ہو۔یا مقامی علماء وقائدین تشخیص  مصلحت کے سربرآوردہ  حضرات حقئق کو  ڈنڈے سے ثابت کریں  لیکن الٹا لٹکانے سے سر اوپر نہیں ہوتا۔
ش ا ،
شیعہ دشمن شیخین
یعنی خلفاء سے بغض و عناد رکھنے والے شیعہ ہیں جو شیخین پر سب و لعن کرتے ہیں،ان کے نزدیک اگر کوئی ان سے نفرت نہ کرے تو وہ شیعہ نہیں ہے۔کیونکہ لعن ان کے مطابق اصول دین یا فروع دین میں شامل ہے۔ہم چونکہ احکامات قرآن اور سنت نبی کریم اور سیرت آئمہ سے لیتے ہیں اس لئے شیخین کو سب کرنے والوں کو شیعہ اہل بیت نہیں مانتے۔بلکہ یہ گروہ مخالف اہل بیت ہے کیونکہ اہل بیت خلفاء پر سب نہیں کرتے تھے۔ہم واضح اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایسے شیعہ نہیں ہیں کیونکہ بغض خلفاء فرقہ خوارج باطنیہ غالیہ کی اختراع ہے۔
18

کسی ملک میں تاریخ میں ڈننڈے اور کپڑے کی اتنی اہمیت نہیں جتنی ان(شیعہ)کے جھنڈےکی  ہے۔انہوں نے پہلے مرحلے میں اسے یادگار نشانی کے طور پر نصب کیا اور دوسرے مرحلے میں حاجت و نیاز لینے کے نام سے اسے تقدس دیا۔مجوس اور مشرکین کا ایک ٹولہ جمع کیا جو اس کی طرف ہاتھ بلند کر کے مانگ رہا ہے۔اور عمامہ پوش جو  اس سے حاجت مانگنے کے بعد جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم جھنڈے سے نہیں مانگتے۔یہ پرچم اپنی جگہ سامری کے بچھڑے کا کردار ادا کر رہا ہے۔1428ھ کو یہ ارتقائی منازل طے کرتے کرتے پاکستان کے شہر میانوالی روانہ ہوا اور سکردو میں ایک میلے کی شکل اختیار کر گیا۔اس جھنڈے کی پوجا یہاں کے علماء کی تاریخ کا سیاہ دن ہے جو صفحہ تاریخ پر ثبت ہو گیا ہے اور اہل بیت کے ماننے والوں کو دوسرے مسلمانوں کے روبرو ضلیل و خوار کیا۔ انہیں مرجعیت۔قیادت،مقتدر سب کی حمایت حاصل تھی۔عبا اور عمامہ پوش حجت اسلام مرجین اسلام مروجین احکام بوتلوں میں بطور تبرک اس جھندے کے دھون کو ڈال کر اپنے گھروں میں لے گئے شاید وہ ابھی  اس بات سے انکار کریں کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا جس طرح اس سے پہلے گھوڑا کا دھون  بطور تبرک پیا تھا کوئی بات نہیں کیونکہ اس سے ان کی سو خرافات و جعلیات میں ایک ہی کمی واقع ہوگی۔لہذا ہم اس دن کو مرجعیت قیادت بڑے چھوٹے علماء دین کی پاسداری کا پول کھلنے اور بوکھلاہٹ کا دن سمجھتے ہیں اور اس دن کو ان کے چہروں پر سیاہ دھبے کے طور پر یاد رکھیں گے۔

اہل بیت سے محبت کی وجوہات کے اس وقت اور بھی مظاہر ہیں جنہیں ہم قارئین کی خدمت میں ایک فہرست کی صورت میں پیش کرتے ہیں:
1-یہ ذوات نبی کریم کے وارث امنت ہیں۔ 2-یہ ذوات ہماری ہدایت و رہبری کرتے ہیں۔ 3- مرکز و مصدر علوم-فزکس کیمسٹری انگریزی زبان جانتے ہیں۔
ہمیں رزق اور نوکریاں دلاتے ہیں۔
ہمارے ہاں مدعیان دوستی اہل بیت رکھنے  اور رکھوانےوالے والوں کی منطق مذکورہ ان تین وجوہات سے خالی نہیں

1-اہل بیت سے دوستی یعنی ان کے دشمنوں سے انتقام لینے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے والے ہیں جیسے مختار ابن ابی عبید اللہ ثقفی مدعی نبوت اقتدار پرست سے دوستی۔۔
2- اہل بیت سے دوستی یعنی ابو مسلم خراسانی سے دوستی ہے۔تاتاریوں ،مغلوں اور صفویوں سے دوستی ہے۔
3-اہل بیت سے دوستی یعنی بنی عباس اور فاطمیوں کے ملحدین حکمرانوں سے دوستی ہے۔
4-اہل بیت سے دوستی یعنی بادشاہان آل بویہ صفوی یا قاچاری سے دوستی ہے اس طرح مسلمان ملکوں میں کفر و الحاد سوشلیزم سیکولرزم پرویزیت،اشاعت فحشاء اور عام مسلمانون کی نظر میں  منفور حکمران مقتدر افراد سے دوستی ہے جو انہیں سہولتیں دیتے ہیں۔
5-اہل بیت سے دوستی یعنی سیکولرزم سے دوستی ہے۔
6- اہل بیت سے دوستی یعنی کمیونسٹ سے دوستی ہے۔
7- اہل بیت سے دوستی یعنی دوسرے کے خانہ و آشیانے کو ویران برباد کنے کی اجازت دے کر اپنے لئے تحفظات حاصل کرنا ہے۔
8-خلفاء مسلمین کو سب و شتم کا نشانہ بنانا ہے۔
9- مسلمانوں کی ضد میں غیر مسلمون سے دوستی کرنا-
10-اٹھتے بیٹھتے ایک دوسرے سے ملتے وقت یا علی مدد کہنا۔
11- آئمہ طاہرین کے روضوں کے گرد طواف کرنا اور گڑگڑا کر حاجتیں طلب کرنا۔
12-جعلی قبروں پر بڑی بری عمارتیں کھڑی کرنا۔
13-ہر مردے کی نماز جنازے میں نوحہ خوانی سینہ کوبی کرنا اور غنا سے بدتر کفر و شرک پر مبنی قصائد بوا شاہ عباس بلتستانی پڑھنا-
14-مدائح و مراثی کے نام سے آئمہ طاہرین سے منسوب جھوٹے قصے کہانیاں غزلیں منسوب کرنا۔
15-توسل کے نام سے بتوں سے حاجتین منگوانا۔
16-اہل بیت سے دوستی کے بہانے کیسانیت نصیریت غلو پھیلانا ہے۔
17-جس دن اپنے پر ظلم ہو تو چیخ و پکار بلند ہو جاتی ہے لیکن جس دن مسلمانوں پر مصیبت پڑتی ہے تو چپ ہو جاتے ہیں۔
  یہی تقاضائے دوستی اہل بیت ہیں؟؟
صفحہ 23


وہ افراد جنہوں نے ہر لمحہ میں علی،حضرات حسنین کی عزت و تکریم کی،تعریف و مدح کی ان کی عزت و اھترام کا پاس رکھا انہیں کو دشمن اہل بیت قرار نہیں دیا جا سکتا جب کہ حقیقت میں اصحاب پیغمبر پر سب و شتم کرنے والے ہی دشمن اہل بیت  ہیں۔
59

غلات کے عقائد میں سر فہرست سب صحابہ شامل ہے اور خلفائے راشدین میں سے خلیفہ دوئم سے یہ سکت عداوت رکھتے ہیں جس کی وجہ ان کا ان کے بتوں کو مسمار کرنا ہے چونکہ یہ عمل نبی کریم کے بعد سب سے زیادہ خلیفہ دوم کےذریعے ہوا  اس لئے یہ انہیں سب سے زیادہ سب کرتے ہیں۔انہون نے ان کے ملکوں پر لشکر کشی کی ہے ان کی خلفاء سے نفرت اس وجہ سے نہیں کہ انہون نے اہل بیت اطہار کے ساتھ کچھ زیادتی ناروا سلوک کیا بلکہ انہیں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر غصہ آتا ہے انہیں اہل بیت کا کوئی درد نہیں لہذا کوئی مسلمان اگر یہ تصور کرے کہ ان خلفاء سے دشمنی اہل بیت کی خاطرہے تو یہ ایک کھلا جھوت ہے بلکہ ایک بہانہ ہے۔بقول بعض اہل بیت کے کندھے پر بندوق رکھ کر مارنے کی مانند ہے۔
59


غلات دشمن امام حسین و قیام امام حسین
اپنی غلو گرائی کو بامعنی بنانے کے لئے ایام عزاء کے موقع پر ذکر حیات قیام امام حسین کے بدل میں سب صحابہ سب شیخین سب مسلمین وغیرہ کو فروگ دیتے ہیں ہمیں شاعر کے اس دھوکے مین نہیں آنا چاہیے کہ
                      اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
یا اس شعر کے:
                 اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے ایک ضرب ید اللہ اک سجدہ شبیری
اس کا مطلب یہی ہے جو اکابر علماء فرماتے ہین کہ کرافات سے دین زندہ ہوتا ہے۔یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ علماء یہ فرماتے ہیں کہ ارتکاب محرمات اور خرافات کی انجام دہی سے دین زندہ ہوتا ہے۔
۔دوسری صدی کے منافقین(جنہیں غلات کہا جاتا ہے) نے امام سجاد کی ذات کو بھی مسک کر کے ایک سوالیہ نشان بنایا-مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی امام ھسین کے خون کے بہانے اپنی انتقامی تھریک کو شرعی بنانے کیلے امام سجاد سے متوسل ہوا-لیکن امام نے اپنی حیات میں اپنے جد بزرگوار اپنے والد عزیز اور چچا کے ساتھ ان دھقوکہ بازوں کی بے وفائی کو مد نظر رکھتے ہوئے مختار کے جال میں نہیں پھنسے۔اس نے محمد بن حنفیہ کو ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن وہ آسانی سے تسلیم نہیں ہوئے تھے تاہم ان کا نام استعمال کر کے اپنی تحریک کا شرعی جواز بنانے کا کچھ نسخہ مل گیا تھا-غرض امام سجاد عبد اللہ بن زبیر اور مختار بن ابی عبیدہ ثقفی دونوں سے دور ایک خاموش غیر جانبدار زندگی گزارنے پر اصرار کرتے تھے۔66لیکن غالیوں نے  ان کے قابوآنے سے مایوس ہونے کے بعد ان کو عورتوں کی صفت سے نوازا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مردوں پر رونا ان کا کام ہے۔انہوں نے کہا کہ امام سجاد چالیس سال تک مسلسل اپنے باپ جوانان بنی ہاشم انصار کی شہادت پر روتے رہے یہاں تک آپ تاریخ انسانیت کے پانچ رونے والوں میں سے ایک قرار پائے-غالیوں کی یہ نئی تحریک یا گمراہ کرنے کا طریقہ بہت موثر ہے،اگر چہ رونا کسی قسم کے درد کی نہ دوا ہے نہ کسی مشکل کا یہ حل ہے بلکہ یہ مشکلات میں مزید اضافہ کا سبب بنتی ہے۔رونے والوں کو ساتھ لے کر کسی بھی وقت کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتے۔یہی وجہ ہے جب جنگ بدر میں مسلمان لشکر کے ہاتھوں مشرکین نے کاری ضربت کھائی تو واپسی پر اکابرین قریش نے اپنی عورتوں کو اپنے مقتولین پر رونے سے منع کیا تاکہ جذبات ٹھنڈے نہ ہو جائیں رونے والا جب روتا ہے تو اس کو سکون ملتا ہے کبھی اپنے رونے سے خوش ہوتا ہے۔اس لحاظ سے مجالس میں زیادہ رلانے والے کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں اور اس کو داد دیتے ہیں۔غالیوں نے تنہا امام سجاد کو رونے والا قرقر نہیں دیا بلکہ آپ کے نام سے پوری امت کو ہمیشہ کیلے رونے پر ہی گامزن کیا بلکہ آج تو بڑے  بڑے علماء حضرات اس کا فلسفہ بیان کرتے ہیں۔کہتے ہیں رونا ایک سیاسی عمل ہے اور کامیابی کے حصول کا بڑا وسیلہ ہے۔دنیا میں بڑی سے بڑی جنگیں لڑی گئی ہیں وسائل جنگ افراد جنگ دقیق نقشہ بندی سے جنگ میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔یہ رونے والے چودہ سو سال سے رو رہے ہیں لیکن ابھی تک نہ کوئی جنگ جیتی ہے نہ دشمنان پر غلبہ حاصل کیا ہے۔ اسی رلانے کیلے ان پڑھ جھوٹے افسانہ ساز کہانیساز،شبیہ سازوں کے محتاج ہیں جہاں رونا ہوگا وہاں شجاعت شہامت ناپید ہوتی ہے۔اس حوالے سے دیکھیں تو غلات دشمنان امام سجاد کے ساتھ دشمنان ملت شیعہ ہیں کہ انہوں نے انہیں صرف رونے کا تحفہ دیا ہے۔66

انہوں نے تنہا اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ خاندان اہل بیت میں سے کسی فرد کو اپنے مقاصد کیلے استعمال کرنے کی کوشش کی۔چنانچہ اس سلسلے میں انہوں نے امام زین العابدین کے فرزند رشید زید بن علی کو قابو کیا کہ وہ قیام کریں۔16 ہزار افراد نے ان کی بیعت کی لیکن آخر قوت میں یہ ان سے پوچھنے لگے کہ آپ خلفاء کے بارے میں کیا تصورات اعتقادات رکھتے ہیں جب زید نے خلفاء کے بارے میں حسن نیت ،حسن عقیدتمندی کا مظاہرہ کیا تو 12 ہزار لشکر نے چھوڑ کر انہیں لشکر ہشام کے سپرد تنہا چھوڑا یہ چوتھا انتقام ہے جو انہوں نے خاندان اہل بیت سے لیا۔
67


تقیہ

فضائل اہل بیت کے بہانے غالیوں نے ایسی احادیث گھڑیں کہ ان کی جب اہل بیت کو خبر ملتی تو وہ اس کی مذمت کرتے۔اس وقت کسی بھی قسم کے ذرائع و ابلاغ نہیں تھے اور نہ ہی تحریری۔اس دور میں مدینہ سے کوفہ کوئی خبر پہنچنا اور پھر اس کا جواب پہنچنے میں کتنی دیر لگتی یہ واضح ہے۔اس سے یہ لوگ استفادہ کرتے۔یہ لوگ امام محمد باقر کے نام سے امام جعفر صادق کے نام سے احادیث جعل کرتےتھے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق تک پہنچتے پہنچتے مہینوں گزر جاتے جس پر وہ ان کی رد فرماتے،انہوں نے ایک اور حربہ استعمال کیا اور کہا امام نے تم سے تقیہ کیا ہے۔پھر انہوں نے تقیہ کو جزء دین گرداننے کے لئے خود امام سے ضرورت اور فضیلت تقیہ کے بارے میں احادیث جعل کیں تقیہ کی حقیقت معلوم ہونے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ غلات نے اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لئے تقیہ وضع کیا ہے آئمہ سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
 67

سر زمین مکہ و منی کو جائے شعراء اور مشاعرہ کی محفل قرار دینا جہاں قرآن کریم کے مذمت  شدہ غلو سے بھرے ہوئے اشعار سرہائے جاتے ہیں۔امام حسین کی مفروضہ مطلقات و اولاد وغیرہ کی کہانیاں اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لئے خلفائے اسلام جنہوں نے تنگی اور فراغی میں نبی کریم کا ساتھ دیا ان پر نقد و طنز کیا جاتا ہے اور کعبہ کی طنزیہ انداز میں توہین و اہانت کرتے ہوئے کہتے ہیں کعبہ درحقیقت زچہ خانہ علی ہے۔یہ دونوں نزول قرآن نفاذ قرآن و سنت و سیرت درخشان محمد کے خلاف ہے۔یہاں عظمت فضائل مناقب کعبہ فضائل مناقب رسول اللہ کی جگہ ہے۔
67


اسماعیلیہ ان افراد کے افکار و نظریات کا ثمر ہے جنہوں نے اس فرقے کو وجود میں لانے کیلے بھرپور کردار اداکیا یہ ظاہری طور پر شیعہ فکر پر قائم تھے لیکن اصل میں اسلام و مسلمین کے خاتمے کیلے سر گرم ہوئے۔جس میں خلفائے راشدین ازواج نبی کریم اور ہر وہ شخص جو ان کی نہج پر چلا،انہوں نے ان سے عداوت اور نفرت برتی۔یہ پہلے مرحلے میں خلافت اسلامیہ جو اس وقت قئم تھی اس کو متزلزل کرنے اور اس کو صفحہ ہستی سے متانے اور شریعت اسلام کو منہدم کرنے اور مسلمانوں کو پاش پاش کرنے کیلے سر گرم ہوئے۔ان کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ہر ایک نے اپنی قدرت و طاقت کو کتابت و خطابت اور فکر و نظر یہ میں صرف کیا۔
محمد اسماعیل جسے لوگ محمد مکتوم کہتے ہیں لا پتہ و لا ولد مرے ہیں وہ کہاں مرے ہیں کب مرے ہیں ان کی شادی ہوئی یا نہیں اس کی کوئی سند نہیں ہے سوائے ان کے دعوٰی کے گرچہ بعض کا اصرار ہے جیسا کہ قائد عوام و ایوان علامہ جعفری صاحب  اور علاقہ کھرمنگ کے سربراہ سیاسی آغائے محمد علی شاہ اور دیگر سادات کا اصرار ہے اسماعیلی صحیح النسب سادات ہیں جب کہ ان سے پیسہ نہ بٹورنے والوں کی سیادت میں انہیں شک ہے۔جب کہ علامہ جعفری صاحب کا کہنا ہے رہبر معظم کی طرف سے آغاخانیوں کی طہارت کا حکم آنے کے بعد ان کے مخالفین کا و ضو ٹوٹ جائے گا۔
84

نصیریہ

یہ سال بھر میں چندیں عیدیں مناتے ہیں:
1-عید غدیر(18 ذی الحجہ)
2-عید الفطر
3-عید قربان
4-عید فراش(شب ہجرت کی عید)
5-عید نوروز
ممکن ہے کوئی کہے کہ ان اعیاد کو منانے میں کیا قباحت ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ان گمراہ لوگوں کو گمراہ نہیں سمجھتے بلکہ انہیں اپنا ہم مسلک تصور کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     ہم نے اپنی کتاب" ادب و نقد ادب" میں باطنیوں کے کردار میں بیان کیا ہے کہ یہ اعیاد بنی عباس نے فارس کے ان مجوسی جیالوں کو خوش کرنے کیلئے شروع کی ہیں۔انہوں نے عید نوروز دی تو مسلمانوں کو اس لفافے میں لپیٹ کر یہ اعیاد دی ہیں جنہوں نے انہیں کرسی خلافت پر بٹھایا ہے۔

غالیوں کا رد

غلات مسجد الحرام کے بھی دشمن رہے ہیں جہاں شیعہ بنام حج بیت اللہ یا عمرہ کیلے پہنچتے ہیں انہیں مسجد الحرام میں بطور انفرادی نماز پڑھنے کی بجائے یا ہوٹل میں جماعت کے ساتھ پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں اور مسجد الحرام میں جماعت کو چندیں بہانے سے باطل قرار دیتے ہیں غرض کئی توجیہات کے تحت لوگوں کو وہاں جانے سے روکتے ہیں۔
   مسجد حرام میں اوقات نماز میں جماعت سے روکنے کی پیش بندی کے طور پر کہا جاتا ہے جب آپ وہاں پہنچین گے تو نماز کے اوقات میں شرکت کرنے سے گریز کریں کیونکہ امام جماعت فاسق ہے،نماز وقت سے پہلے پڑھتے ہیں،ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں،مکمل سورہ نہیں پڑھتے،ہاتھ  باندھ کر اور آمین پرھتے ہیں اور سب سے اہم بات کہ دشمن اہل بیت ہیں ،اس کیلے بعض فقہاء کے فتوی علماء کی کہانیاں اور مصلحت تراشیاں بیان کرتے ہیں۔
67