Sunday 5 October 2014

حج سے متعلق علامہ آغا علی شرف الدین بلتستانی کی ایک عمدہ تحریر

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

حج کتاب موسوعۃ الفقیہ تالیف ھیئۃ کبار علماء اسلام ج 17 ص 23 حج بفتح ،الحا،القصد،بعض نے قصد معظم کو کہا ہے۔ رجل محجوج،ای مقصود،اصطلاح علماء اسلام کے نزدیک قصد موضع مخصوص ،یعنی بیت اللہ الحرام و عرفۃ وہ بھی مخصوص اشہر حرم میں اعمال مخصوص طواف سعی وقوف عرفہ،شرائط مخصوص کے ساتھ،حج یکے از ارکان اسلام میں سے ہے۔حج کا نص قرآن و سنت سے ثابت ہے۔

فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ( 97 )
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پا لیا اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہلِ عالم سے بے نیاز ہے
العمران آیت 97

(کتاب الحج عبداللہ طیار ص 88 ) لغت میں کسی قصد کرنے یا اسے مقصود بنانے کو حج کہتے ہیں۔لیکن شریعت میں مخصوص ایام میں کعبہ کے گرد و نواح میں مخصوص اعمال بجا لانے کو حج کہتے ہیں۔حج کی دو قسمیں ہیں ایک حج اکبر ہے اور دوسرا حج اصغر ہے جسے عنرہ کہتے ہیں۔
قارئین کرام حج اپنی جگہ چندین عناصر سے مرکب ہے۔اس کا ہر عنصر دوسرے سے وصل ہے۔ جسے ہم ان نکات میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1- حج کا پہلا عنصر نکانی ہے یعنی اس کی جائے وقوع حدود اربعہ مساحت اربعہ کیا ہے؟ حاجی کا پہلا قصد کعبہ ہوتا ہے اس کی مساحت کتنی ہے، یہ بیت اپنے طول و عرض اور ارتفاع پر مشتمل ہے،صفا و مروہ کہاں واقع ہیں اور کتنی نسافت طول و عرض پر مشتمل ہیں،اسی طرح مشعر الحرام منی رمی جمرات یہ سب اس کے عنصر مکانی ہیں۔
2- عنصر زمانی یعنی حج کا آغاز کب سے ہوا ہے؟ بعض نے آدم صفی اللہ کے زمین پر بسنے کے بعد سے ہونے کا کہا ہے۔لیکن منتقن یقین یہ ہے کہ ابراہیم ع سے ہوا۔اس دور میں اس کا تاریخی پس منظر کیا تھا۔اس کے لئے اس عنصر میں دیکھنا ہوگا کہ اس کی تاریخ اور عمق کتنی گہری ہے۔
3- فقہ حج کتنے احکامات پر مشتمل ہے ۔واجب،مستھب،کراہت وغیرہ اس میں شامل ہیں۔ اس کا فقہی عنصر ہے۔
4- عنصر رجالی ہے۔یعنی یہ عمل کس کی تاسی میں کریں گے،یہ عمل کن شخصیات کی طرف برگشت کرتا ہے۔اس میں سر فہرست قابل تقلید و نمونہ حضرت ابراہیم ع اور آپ کے بعد آنے والے سلسلہ کے انبیاء بالخصوص خاتم الانبیاء محمد مصطفی ص ہیں۔ان کے بعد عنصر رجالی میں خلفائے راشدین رض اور آئمہ طاہرین ع،اصحاب کبار اور فقہاء و مجتہدین آتے ہیں۔
ناظرین و ناظمین حج یعنی حجاج و میزبان حجاج اور مسئولین و منتظمین مہمانان بیت اللہ ہیں۔
وہ ڈاکو اور رہزن ہیں جو اس موقعہ پر اسلام و مسلمین کے خلاف اپنا حسد و کینہ نکالنے کیلےحج و حجاج کو مسخ کرنا چاہتے ہیں۔
5- عازم حج کیلے ضروری ہے کہ وہ تمام گناہوں ست توبہ و استغفار کرے۔


قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ( 30 ) نور - الآية 30
مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبردار ہے

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ( 31 ) نور - الآية 31
اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں (کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔ اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ

6- اگر اس نے کسی کے ساتھ جبر و تشدد،ظلم و زیادتی کی یا دھوکہ سے کوئی مال لیا تو وہ اس تک پہنچنائے یا ان سے معافی مانگے چاہے یہ مالی ہو یا جانی ہوں یا عزت و آبرو کے ھقوق ہوں۔
7- حج کیلے جانے کے ارادہ کے ساتھ ساتھ حج و عمرہ کیلے اپنے مال حلال سے زکوۃ دیں کیونکہ اللہ طیب ہے اور طیب کو ہی قبول کرتا ہے اور عمل صرف متقین سے ہی قبول کرتا ہے۔
8-حج و عمرہ رضا الہی اور اجر و ثواب کو ہی نظر میں رکھیں اور اسی کے مطابق اعمال انجام دیں اور ہر اس فکر و سوچ سے قول و فعل سے گریز کریں جس سے دنیا کے مال و دولت و ریاست،شہرت اور فخر و مباہات کا تصور جنم لے۔
9- جب بھی گاڑی پر سوار ہون تو بسم اللہ،کہیں اللہ کی حمد کریں،سفر کی دعا پڑھیں ذکر اللہ اور استغفار کریں اور تسبیح و تحلیل زبان پر ہمیشہ جاری رکھیں۔
10- گفتگو میں قیل و قال اور غیر ضروری باتوں سے خود کو دور رکھیں۔ مزاح اور کھیل کود سے پرہیز کریں۔
11- اپنے رفیق ساتھی کو جتنا ہو سکے اچھی نصیحت و مشورہ دیں،نیک کاموں کی دعوت دیں اور برے کاموں اور منکرات سے روکیں اور خود بھی اسے کسی قسم کی اذیت و آزار پہنچانے سے گریز کریں۔
12- کسی بھی حاجی کو دوران سفر اور دوران طواف و سعی اور رمی جمرات منی میں ذیت و آزار پہنچانے سے پرہیز کریں۔
13- حاجی وکو چاہئے کہ وہ شعائر حج کو انجام دیتے وقت اللہ کیلے خضوع اور رسول ص کی پیروی کو اپنائیں۔
14-ہر قسم کے رفث ،فسق ،جدال اور عصیان سے پرہیز کریں جدال سے مراد وہ جدال ہے جو غیر حق ہے جب کہ جدال حق نہی از منکرات، باب امر بالمعروف ہر حال میں واجب یا مستھب ہے۔
15- کوشش کریں اوقات صلاۃ میں نماز جماعت کے ساتھ انجام دینے میں سرعت کریں۔ جو شخص نماز میں سستی و کاہلی اور بے پرواہی کرتا ہے وہ شخص عمل عظیم انجام دینے سے قاصر و ناتوں ہے۔
16- حاجی اگر عورت ہے تو اس کو کسی مھرم کے ساتھ جانا چاہیے ،غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے گریز کرین غیر محرم کے ساتھ سفر کرنا باعث گناہ کبیرہ ہے لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
17- عورت جتنا بھی ہو سکے خود کو حجاب میں رکھے ،بے حجابی سے پرہیز کرے۔مناسک حج کو علم و آگاہی اور حیا کے ساتھ مردوں سے مزاحمت کئے بغیر ان سے مخلوط ہونے سے گریز کرتے ہوئے انجام دیں۔حاجیوں کو ان جمالات سے گریز کرنا چاہیے جو شعائر اللہ کے ساتھ زیب نہیں دیتے ہیں۔
18- شخص حاجی کو چاہیے تمام تر حرص و لالچ ترک کر کے مسلمانون کو نفع پہنچانے کیلے ان کے ساتھ احسان اور نیکی کرے ،ان کی مادی و معنوی معاونت کرے اور ہر ایک کی ہدیت و رہنمائی کرے ،مومن مومن کیلے اس دیوار کی مانند ہے جو ایک دوسرے کو سہار ا دیتی ہیں۔

آل عمران آیت 96
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ( 96 )
پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لیے مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو مکے میں ہے بابرکت اور جہاں کے لیے موجبِ ہدایت

اللہ نے کعبہ کی خسوصیات اور امتیازات کو بیان کرنے کے ساتھ اس بیت سے متعلق لوگوں کے ذمے عائد احکام کو بھی بیان کیا ہے جہاں تک بیت کی بات ہے ،کعبہ کے بارے میں چند نکات بیان کئے گئے ہیں۔

1- یہ بیت پہلا گھر ہے جو عام لوگون کیلے بنایا گیا ہے قرآن کریم میں تین جگہ پر اس بیت کو اللہ نے اپنا بیت کہا ہے ،جب کہ اس آیت میں اور دوسری دو آیات میں اس کو لوگوں کا بیت کہا ہے۔دونوں صورتوں میں یہ بیت کسی فرد خاص اور گروہ خاص سے مختص نہیں یہ کسی کی ملکیت نہیں بلکہ یہ عام الناس کیلے ہے۔
2-یہ گھر جو عام لوگوں کیلے بنا ہے وہ مکہ میں ہے۔
3- یہ روز افزوں بابرکت اور فوائد سے پر گھر ہے۔
4- یہ عالمین کی ہدایت کا مرکز ہے۔
5- اس گھر میں اللہ کی بہت سی نشانیاں ہیں ان میں سے ایک واضح نشانی مقام ابراہیم ع ہے۔

یہ پانچ تعریفیں اس گھر کے بارے میں اس آیت میں کی گئی ہے۔لوگوں کے ذمہ عائد احکام میں ہے کہ ہر وہ شخص جو اس گھر میں داکل ہوگا وہ اللہ کے امن میں ہوگا۔اس کا متعرض نہیں ہوسکتا۔یہاں وہ تحفط خاص ہے جو دیگر جگہوں پر نہیں ہے۔یہاں رہنے والے قتل و غارت سے محفوظ ہیں۔دوسری بات عام لوگوں پر فرض ہے اس بیت کی طرف قصد کریں اس بیت کی طرف آجائیں وہ شخص جو اس تک پہنچنے کیلے استطاعت رکھتا ہو۔اس میں استطاعت بدنی و مالی اور سفری استطاعت شامل ہیں۔
یہ آیت ان روایات کو بھی رد کرتی ہیں جن میں بیان ہے کہ یہ گھر آدم صفی اللہ سے پہلے مطاف ملائکہ تھا۔پہلا گھر جو لوگوں کیلے بنایا گیا ہے خاص آدم سے شروع ہوا ہے۔آدم سے پہلے ناس نہیں تھے۔یہ گھر قطعا غیر ناس کیلے نہیں تھا اگر ان کیلے بھی ہوتا تو اللہ یہ نہیں فرماتا کہ یہ ناس کیلے ہے۔

حج یکے از ارکان اسلام ہے قرآن میں اللہ فرماتا ہے۔
بقرہ 158،بقرہ 196،بقرہ 203،

بقرہ 158 إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ( 158 )
بےشک (کوہ) صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں۔ تو جو شخص خانہٴ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے۔ (بلکہ طواف ایک قسم کا نیک کام ہے) اور جو کوئی نیک کام کرے تو خدا قدر شناس اور دانا ہے

بقرہ 196 وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ( 196 )
اور خدا (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو۔ اور اگر (راستےمیں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈالے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔ اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل وعیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے

بقرہ 203 وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَىٰ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ( 203 )
اور (قیام منیٰ کے) دنوں میں (جو) گنتی کے (دن میں) خدا کو یاد کرو۔ اگر کوئی جلدی کرے (اور) دو ہی دن میں (چل دے) تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ اور جو بعد تک ٹھہرا رہے اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ یہ باتیں اس شخص کے لئے ہیں جو (خدا سے) ڈرے اور تم لوگ خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب اس کے پاس جمع کئے جاؤ گے

مائدہ 1،2،مائدہ 94،مائدہ 97

مائدہ 1،2 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ( 1 )
اے ایمان والو! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لیے چارپائے جانور (جو چرنے والے ہیں) حلال کر دیئے گئے ہیں۔ بجز ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ( 2 )
مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کر دیئے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت الله) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے

مائدہ 94 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( 94 )
مومنو! کسی قدر شکار سے جن کو تم ہاتھوں اور نیزوں سے پکڑ سکو خدا تمہاری آزمائش کرے گا (یعنی حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے) تا کہ معلوم کرے کہ اس سے غائبانہ کون ڈرتا ہے تو جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لیے دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے

مائدہ 97 جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ( 97 )
خدا نے عزت کے گھر (یعنی) کعبے کو لوگوں کے لیے موجب امن مقرر فرمایا ہے اور عزت کے مہینوں کو اور قربانی کو اور ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے بندھے ہوں یہ اس لیے کہ تم جان لو کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے خدا سب کو جانتا ہے اور یہ کہ خدا کو ہر چیز کا علم ہے

حج 27-29،حج 22،حج 23،حج 36-37

وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ( 27 )
اور لوگوں میں حج کے لئے ندا کر دو کہ تمہاری پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو دور دراز رستوں سے چلے آتے ہو (سوار ہو کر) چلے آئیں
لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ( 28 )
تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں۔ اور (قربانی کے) ایام معلوم میں چہار پایاں مویشی (کے ذبح کے وقت) جو خدا نے ان کو دیئے ہیں ان پر خدا کا نام لیں۔ اس میں سے تم خود بھی کھاؤ اور فقیر درماندہ کو بھی کھلاؤ
ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ( 29 )
پھر چاہیئے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور خانہٴ قدیم (یعنی بیت الله) کا طواف کریں

حج 22 كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ ( 22 )
جب وہ چاہیں گے کہ اس رنج (وتکلیف) کی وجہ سے دوزخ سے نکل جائیں تو پھر اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور (کہا جائے گا کہ) جلنے کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو

إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ ( 23 )
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا ان کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہہ رہیں ہیں۔ وہاں ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور موتی۔ اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا
حج 23
حج 36-37 وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ( 36 )
اور قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لئے شعائر خدا مقرر کیا ہے۔ ان میں تمہارے لئے فائدے ہیں۔ تو (قربانی کرنے کے وقت) قطار باندھ کر ان پر خدا کا نام لو۔ جب پہلو کے بل گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے ان کو تمہارے زیرفرمان کردیا ہے تاکہ تم شکر کرو
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ ( 37 )
خدا تک نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔ بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح خدا نے ان کو تمہارا مسخر کر دیا ہے تاکہ اس بات کے بدلے کہ اس نے تم کو ہدایت بخشی ہے اسے بزرگی سے یاد کرو۔ اور (اے پیغمبر) نیکوکاروں کو خوشخبری سنا دو

اجماع امت سے استدلال کرتے ہیں کہ حج عمر میں ایک دفعہ واجب ہے۔نیز اجماع امت کیلے بھی نبی کریم ص کی اس حدیث و فرمان سے استناد کرتے ہیں۔جو آپ نے سائل کے جواب میں فرمایا تھا اسی کو بنیاد بنا کر بہت سے لوگون کو حج تکرار کرنے والون سے چڑ ہے خاص کر اس حقیر مظلوم و محصور سے، یہاں تک کہ نجف کے ساتھی رشتے میں سسر سکردو شہر کے امام جماعت و خطیب اما قرآن و سنت محمد ص سے ناآشنا مصادر دین صرف تقلید مجتہدین پر ختم کرنے پر مصر جناب قبلہ آقای علی جوہری پر ہمارا تکرار حج کرنا بہت گراں و ناگوار گزرتا ہے۔مگر یہ کسی قسم کے ذاتی عناد و دشمنی کی بنیاد پر نہیں صرف اور صرف قرآن اور سنت محمد ص جو اصل سرچشمہ حیات شریعت ہے اس سے نا واقفیت و ناآگاہی کی بنیاد پر ہی ہے ورنہ خود آیت کریمہ اور جواب رسول ص میں اس کا جواب واضح موجود ہے۔

فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ
( عمران 97)
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پا لیا اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہلِ عالم سے بے نیاز ہے

یہاں دو جملے آئے ہیں جن سے اس کے وجوب کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے لوگون کے ذمہ ہے اللہ کیلے اس کے بیت کا حج کریں دوسرا جملہ ومن کفر۔۔۔العالمین اگر کسی نے سستی و کاہلی دکھائی تو اللہ کافرون سے بے نیاز ہے۔ اما سنت نبی کریم ص سے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے

بنی الاسلام علی خمس شہادۃ ان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ،واقام الصلوۃ والصیام والصیام والزکوۃ والحج۔ امت علماء کہتے ہیں اما حج عمر میں ایک دفعہ واجب ہوتا ہے۔تکرار مستحسن نہیں ہے مطعون ہے چنانچہ بعض لوگوں کا خیال ہے ہمیں قائلین مرۃ کی بھی دلیل کو دیکھنا چاہیے۔لہذا قائلین وحدت نے دلیل میں اجماع کو پیش کیا ہے اور اجماع کی سند نبی کریم ص سے مستند حدیث سے دی ہے لیکن آیت کریمہ اور نبی کریم ص کا فرمان اس دعوی کو مشکوک و مخدوش کرتے ہیں۔

1- حج قران وہ ہے جس میں حج اور عمرہ ساتھ ہوں۔
2- حج تمتع وہ ہے جس میں حج اور عمرہ ساتھ ہوتا ہے لیکن عمرہ کرنے کے بعد محل ہو سکتے ہیں۔
3- حج افراد اس میں صرف حج ہے اور عمرہ نہیں ہے۔

حجۃ الوداع کے موقع پر بعض نے صرف عمرہ کیلے احرام باندھا تھا بعض نے دونوں کیلے احرام باندھا اور بعض نے صرف حج کیلے احرام باندھا تھا۔رسول اللہ ص نے صرف حج کیلے احرام باندھا تھا ۔حج قران وہ ہے کہ حج و عمرہ دونوں کیلے محرم ہوتا ہے احرام باندھتے ہوئے کہتا ہے لبیک اللھم بحج و عمرہ
اس سورت میں شخص محرم احرام میں باقی رہتا ہے جب تک اعمال حج ختم نہ ہوں۔
حج تمتع وہ ہے کہ انسان اسے حج کے مہینوں میں انجام دے پھر وہ احرام سے محل ہوتا ہے سلا ہوا لباس پہنتا ہے خوشبو استعمال کرتا ہے ،جب روزہائے حج پہنچ جاترے ہیں تو دوبارہ محرم ہوتا ہے،مکہ سے محرم ہوتا ہے طواف کرتا ہے ،سعی صفا و مروہ کرتا ہے،احرام سے محل ہوتا ہے۔ پھر بیٹھتا ہے ،تلبیہ کے دن دوبارہ محرم ہوتا ہے۔ جب کہ حج افراد مین حاجی میقات سے صرف حج کیلے نیت کرتا ہے لبیک اللھم بحج اور مکہ آنے کے بعد اعمال حج ختم ہونے تک احرام میں رہتا ہے۔اعمال حج ختم ہونے اہے تو عمرہ کر سکتا ہے۔

حج قرآن میں:
حج کے ارکان خمسہ اسلام میں ہونے کی بنیاد پر اس کے ہر پہلو جس میں مکانی و زمانی سب اعمال ہیں کو قرآن میں واضح و روشن محکم انداز میں اٹھایا ہے۔
1- حج کا مکان کہاں ہے،یہ قرآن کریم کی مختلف آیات میں بیان ہوا ہے۔
2- زمان حج سال کے کن مہینوں میں آتا ہے۔اس کا ذکر قرآن کی آآیات میں بیان ہوا ہے۔
3- اعمال حج بھی آیات میں بیان ہوا ہے۔
4- اصل وجوب حج بھی آیات میں بیان ہوا ہے۔

سورہ حج کی آیت 26 وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ( 26 )
(اور ایک وقت تھا) جب ہم نے ابراہیم کے لئے خانہ کعبہ کو مقرر کیا (اور ارشاد فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیجیو اور طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو

میں بیان ہے کہ مندرجہ ذیل ھدایات پر عمل کریں:
1- کعبہ بیت اللہ اس کی تعمیر میں در و دیوار میں خلل و سقوط آئے تو اس کی تعمیر واجب ہے۔
2- بندگان پر پہلا واجب اس کا طواف کرنا ہے۔اس بیت کو ہر جسمانی اور روحانی معنوی و مادی موزی و اذیت رساں تکلیف دہ چیزوں سے پاک و منزہ کرنا ہر فرد مسلمان پر واجب ہے۔ جس طرح نجاسات ظاہری و فضلات حیوانی و خون وغیرہ سے گھر کو پاک رکھنا ضروری ہے اسی طرح مشرکین اور اہل معاصی اور کفر آمیز باتوں سے اس گھر کو پاک و منزہ رکھنا ضروری ہے۔
3-ایک ادارہ یا افراد لائق و صالح و دیندار ملک میں پیدا ہونے چاہیں جو قبل از وقت یا اوقات حج لوگوں کو حج کی طرف دعوت دین اور انہیں بغیر کسی معاوضے اور طلب اجرت کے مسائل حج سے آگاہ کریں۔
4- ان مقامات مقدسہ حرم مکی عین عرفات مشعر مزدلفہ منی میں ذکر اللہ حجاج کی زبان پر جاری رہے تکبیر و تحلیل و تسبیح ہر مسلمان اپنی زبان سے خود ادا کرے نہ اس کیلے کسی نشست کا اہتمام کیا جائے اور کوئی دوسرا شخص اس کی تلقین کرے۔
5- جو ہدیہ حاجی کعبہ کیلے منی میں بطور ہدیہ پیش کرتا ہے اس کا کچھ حصہ خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی دے۔
6- حلق و تقصیر رمی جمرہ کے بعد کریں۔

حج احادیث میں:
1-اصول کافی
2- من لایحضر الفقیہ ج 2 ص 124 میں حدیث باب 62 سے لے کر 214 تک تقریبا 1992 اھادیث بیان کی گئی ہیں۔
3- استبصار ج 2 ص 139 شیخ طوسی ،باب 81 حدیث 452 سے 1196 تک بیان ہوئی ہیں۔
4-تہذیب کتاب الحج ج 5 ص 2 حدیث 416
5- وسائل الشیعہ تالیف محمد بن حسن حر عاملی متوفی 114 ج 11 حدیث 14107 سے لے کر 19900 تک حج سے متعلق ہیں جو جلد 11،12،13،14 میں بیان ہوئی ہیں۔
6- مستدرک الوسائل
7- بحار الانوار

کتب اہل سنت میں:
صحیح مسلم ج 8 ص 72 سے 237 تک احادیث نقل کی گئی ہیں۔
سنن ابی داؤد ج 2 ص 139 پر 1721 سے 2045 تک
سنبن ترمذی ج 3 ص 73 باب 77 میں حدیث نمبر 809 سے 967 تک
سنن نسائی ج 5 ص 110 سے 277 تک
صحیح بخاری ج 1-2-3
دار تراث العربی ص 163 سے 223 تک 224 سے زائد احادیث آئی ہیں۔

نوٹ:
مکمل تفصیل (حج،عمرہ،تاریخ حج،آداب حج،حج کی دعائیں ،سفر کی دعائیں حج کے مقامات وغیرہ وغیرہ کیلے) حج کا انسائیکلوپیڈیا Encyclopedia of Hajj موسوم بہ "معجم حج و حجاج" تالیف علامہ آغا سید علی شرف الدین الموسوی بلتستانی ملاحظہ کیجے۔

"معجم حج و حجاج" آغا علی شرف الدین کی آفیشل ویب سائیٹ پر مفت ڈاونلوڈ کیلے دستیاب ہے:

www.sibghtulislam.com

Saturday 5 April 2014

تقیہ سے متعلق آغا صاحب کا دو ٹوک موقف

فضائل اہل بیت کے بہانے غالیوں نے ایسی احادیث گھڑیں کہ ان کی جب اہل بیت کو خبر ملتی تو وہ اس کی مذمت کرتے۔اس وقت کسی بھی قسم کے ذرائع و ابلاغ نہیں تھے اور نہ ہی تحریری۔اس دور میں مدینہ سے کوفہ کوئی خبر پہنچنا اور پھر اس کا جواب پہنچنے میں کتنی دیر لگتی یہ واضح ہے۔اس سے یہ لوگ استفادہ کرتے۔یہ لوگ امام محمد باقر کے نام سے امام جعفر صادق کے نام سے احادیث جعل کرتےتھے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق تک پہنچتے پہنچتے مہینوں گزر جاتے جس پر وہ ان کی رد فرماتے،انہوں نے ایک اور حربہ استعمال کیا اور کہا امام نے تم سے تقیہ کیا ہے۔پھر انہوں نے تقیہ کو جزء دین گرداننے کے لئے خود امام سے ضرورت اور فضیلت تقیہ کے بارے میں احادیث جعل کیں تقیہ کی حقیقت معلوم ہونے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ غلات نے اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لئے تقیہ وضع کیا ہے آئمہ سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

ہشام ابی شاکر کے غلاموں میں سے تھا اور ابی شاکر زندیق تھا-ہشام بن حکم مومن طاق جس نے اس فکر کی تشھیر کی انہی افراد نے تقیہ کو جعل کیا تقیہ یعنی جھوٹ ۔جب ایسی باتیں پھیلاتے تو اس کے برے نتائج نکلتے اور جب برے نتائج نکلتے تو یہ لوگ اپنی حرکتوں سے انکار کرتے تھے اور تقیہ کو ڈھال بناتے۔

مسجد نبوی

مسجد نبوی
............................
مسجد نبوی کی اپنی ابتدائی دور سے الی یومنا ھذا چندیں بار توسیع ہوئی ہے۔مسجد نبوی کی بنیاد اس جگہ پر ہوئی جہاں مصعب بن عمیر بعض مہاجرین و انصار کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔مصعب بن عمیر مکہ واپس جانے کے بعد ان کی جگہ پر اسعد بن زرارہ نماز پڑھتے تھے۔
جب نبی کریم ص مدینہ پہنچے تو عوالی میں قبیلہ بنوعمر بن عوف میں قیام کیا۔عوالی مدینہ کے اس طرف کو کہتے ہیں جو نجد کی طرف ہے اور جو تہامہ کی طرف اس کو سافلہ کہتے تھے اور قبا عوالی کی طرف تھا۔کہتے ہیں پیغمبر عوالی میں 14 دن رہے پھر بنی نجار کو پیغام بھیجا چنانچہ وہ تلواریں نیام سے نکال کر آئے ۔پیغمبر اپنی سواری پر تھے،ابوبکر ان کی سواری کے پیچھے تھے اور بنی نجار ان کے اردگرد تھے یہاں تک یہ ابوایوب کے گھر کے باہر پہنچے۔وہاں آپ نے نماز پرھی جو حیوان رکھنے کی جگہ تھی۔

جب نبی کریم ص مدینہ پہنچے تو اسی جگہ نماز پرھی۔کہتے ہیں پیغمبر کا اونٹ آکر اسی مسجد کے نزدیک رکا تھا جہاں بعض مسلمان نماز پڑھتے تھے یہ جگہ جہاں سہل و سہیل دو یتیموں کی تھی جہاں وہ اونٹ وغیرہ رکھتے تھے۔نبی کریم نے ان دونوں کو بلایا ان سے معاملہ کیا تاکہ اس جگہ پر مسجد بنائی جائے۔ان دونوں نے کہا رسول اللہ ہم آپ کو ھبہ کرتے ہیں پیغمبر نے کہا نہیں ہم آپ سے معاملہ کرتے ہیں اور آپ کو دس دینار دیتے ہیں چنانچہ آپ نے ابوبکر سے کہا انہیں دس دینار دیں۔اس حدیث کے مطابق اس مسجد میں ابوبکر کا حصہ ہے۔ربیع الاول پہلی صدی ہجری کو نبی کریم ص کے مبارک ہاتھوں سے اس کی بنیاد ڈالی گئی۔وہاں ایک دیوار بنی ہوئی تھی اور اس پر چھت نہیں تھا جس کا قبلہ بیت المقدس کی طرف تھا۔اسد بن ضرارہ اس کے بانی تھے۔جمعہ کی نماز بھی پڑھتے تھے ۔نبی کریم کے آنے سے پہلے انس بن مالک سے مروی ہے۔

اس مسجد کا طول سات ہاتھ اور اس کی چورائی سات ھاتھ پر مشتمل تھی۔35 ضرب 30 میٹر اس کی مساحت تھی جب کہ کل مساحت 4200 ضرہ مربعہ پر محیط تھی۔کل 1050 مربع تھی بلندی۔نبی کریم ص جب 7 ہجری کو خیبر سے واپس تشریف لائے تو پہلی بار اس کی توسیع کی 40 ہاتھ طویل یعنی 20 میٹر 30 ہاتھ پر تھی۔17 ہجری کو عمر نے پھر عثمان نے اس کی توسیع کی،پیگمبر کی حیات میں اس کے(پلر) کھجور کے تنہ تھے اوپر سقف کھجور کی شاخیں تھین باقی کو کھلا رکھا نبی کریم ترجیھ دیتے تھے کہ مسجد کو اسی سادہ حالت میں رکھیں۔سادہ حالت میں رکھنے کا سبب یہ نہیں تھا کہ گنجائش نہیں تھی مالی کمی تھی کیونکہ اصحاب پیغمبر نے مال جمع کرکے دیا کہ مسجد بنائیں اور اس کو کھجور کے تنے کی بجائے بہتر طریقہ سے بنائیں لیکن پیغمبر نے اسے قبول نہیں فرمایا آپ نے فرمایا مجھے اپنے بھائی موسی سے ہٹ کر کوئی جگہ نہیں بنانی،اس نقل معتبر کے بعد این جی اوز کے توسط سے قصور معلی شہنشاہیت مانند بلند قبہ بلند مینار والی مساجد،مصلیں وسعت مسجد دیکھ کر شرم نہ کرنے والے انسانون پر حیرت ہے۔

(آغا صاحب کی کتاب معجم حج و حجاج سے اقتباس)

فقہ جعفری میں اہل بیت سے کتنی روایات مروی ہیں؟؟

"تیسرے فریق نے ان دونوں(اہل قرآن اور اہل حدیث) کے روش کو مسترد کرتے ہوئے ایک طرف قرآن کو ناقص مبہم،مجمل اور منحرف کتاب قرار دیا اور دوسری طرف سے سنت رسول کے بارے میں بانگ دھل واشگاف الفاظ میں کہا رسول کی سنت حجت ہے لیکن ہم رسول کی سنت اصحاب سے نہیں لیتے کیونکہ تمام اصحاب عادل نہیں ہیں۔یعنی اصحاب میں فسق و فجور کے مرتکب افراد بھی تھے لہذا ہم سنت کو زہل بیت سے ہی لیتے ہیں۔اس طرح یہ گروہ اسلام کے دونوں مصدر قرآن و سنت نبوی سے لنگڑا ہے ۔ان دونوں مصادر کے انکار کے بعد مندرجہ ذیل سوالات استبصارات پیش آتے ہیں:
اہل بیت سے مراد کون ہیں اس میں کون کون سی ذوات اور ہستیاں آتی ہیں لیکن اس سوال کے جواب میں مضطرب پراگندگی سے دوچار ہیں ۔کہتے ہیں اہل بیت سے مراد حضرات امیرالمومنین حضرات حسنین فاطمہ زہراء امام سجاد یک بعد دیگر اہل بیت کے مصداق ہیں۔لیکن آپ ان کے 51 ابواب فقہ میں امیرالمومنین سے جو سب سے پہلے اہل بیت کے مصداق ہیں جو رسول اللہ کی بعثت سے پہلے ان کے ساتھ رہے۔آپ کے پروردہ ہیں آپ کے حضر و سفر میں آپ کے ساتھ رہے ہیں۔آپ کے بعد تیس سال زندگی گزاری ہے اور چار سال خلافت پر رہے بتائیں ان سے کتنی احادیث منسوب ہیں؟
2-حضرت فاطمہ زہراء جو بعثت سے پہلے یا ابتدائی سالوں میں پیدا ہوئی ہیں۔تمام ادوار رسالت میں آپ کو دیکھا ہے آپ کی کتابوں میں حضرت زہراء سے کتنی احادیث موجود ہیں؟
3۔آپ قطعی طور پر بعض اصھاب کے عادل ہونے کے معتقد ہیں آپ بتا دیں آیا ان سے سنت رسول لینے میں کیا جھجک ہے مثلا سلمان سے اباذر مقداد سے ابن عباس سے آپ نے کتنی روایات نقل کیا ہے؟
4۔حضرات حسنین جنہوں نے ہجرت کے آخری سالوں کو کمال درک و بصر و بصیرت کے ساتھ درک کیا ،ان دو ذوات سے کتنی احادیث فقہ میں موجود ہیں۔اس کے بعد تابعین میں امام سجاد ہیں ان کی طرف سے ان سے منسوب کتنی احادیث ہیں۔
ان تمام ابواب فقہ کیلے ایک معتد بہ مقابل مقدار کافی احادیث نہ ملنے کے بعد انہوں نے چھلانگ مار کر کہا کہ تقیہ اور سخت پابندیوں کی وجہ سے اندرون خانہ محصور ہونے کی وجہ سے یہ ذوات احکام شرعیہ کو بیان نہیں کر سکے۔اور یہ کام کرنے کا موقع صرف امام جعفر صادق کو نصیب ہوا۔

بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان جاری اقتدار کی رسہ کشی سے آپ کو ایک قسم کی آزادی ملی جس میں آپ نے بھرپور طریقہ سے حکم شریعت کو بیان کیا۔لہذا ہم دین کو امام جعفر صادق سے لیتے ہیں۔اسی وجہ سے ہم خود کو جعفری سے انتساب کرتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ:
آپ دین و شریعت کو امام جعفر صادق سے لیتے ہیں لیکن نام سب اہل بیت کا لیتے ہیں اس کی کیا منطق ہے؟امام جعفر صادق رسول اللہ سے نہیں ملے۔تو آپ نے یہ تمام احکام شرعی کہاں سے اخذ کئے۔اگر کہتے ہیں امام نے یہ سب ازروئے وحی اللہ سے لیا چنانچہ اس سلسلہ میں گروہ آئمہ کے وحی سے متصل ہونے کا سلسلہ باقی رہنے کا دعوی بھی کرتے ہیں۔جب کہ تسلسل وحی تسلسل نبوت کی ایک کڑی ہے اور قرآن اور امت کی وحدت اجماع کے تحت تسلسل نبوت سورہ نساء آیت 165 کے تحت منقطع ہے۔نہج البلاغہ میں امیر المومنین فرماتے ہیں حجت نبی کے بعد ختم ہوئی ہے۔لہذا امام جعفر صادق نے اتنی احادیث کس سے سنی ہیں؟؟
اگر امام محمد باقر اور امام سجاد سے مروی ہیں تو کیوں امام باقر اور امام زین العابدین سے اتنی احادیث نہیں،اگر امام زین العابدین نے امام حسین سے سنی ہیں تو کیوں امام حسین سے اتنی احادیث مروی نہیں ہیں۔یہ کہنا کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان اقتدار کی کشمکش میں انہیں موقع ملا اور آپ نے درس کا بندوبست کیا۔ایسی کوئی تاریخ بتائیں جب اتنے افراد مدینہ میں آپ کے حلقہ درس میں شریک ہوئے۔ان افراد اور جائے درس کا ذکر کریں،مسجد نبوی پر بنی امیہ کے دور میں انہی کا قبضہ تھا اور بنی عباس کے دور میں بنی عباس کا تو کیا امام صادق نے کوفہ کی مسجد میں درس دیا ہے اگر ایسا ہے تو وہ تاریخ بتایں جب امام کوفہ آئے اور کیوں کوفہ تشریف لائے اور کس سن میں تشریف لائے اس کا تاریخی حوالہ دیں۔

اگلا سوال امام جعفر صادق سے نقل کرنے والے راوی کتنے ہیں ان راویوں کا حال بھی بیان کریں۔ہم نے اس کی وضاحت اپنی کتاب "شیعہ اہل بیت" میں بیان کی ہے۔جن راویوں کو آپ نے امام جعفر صادق سے اتنی ضحنیم احادیث نقل کرنے کا دعوی کیا ہے ان راویوں کا نام آپ کے معاجیم رجال میں یا مجہول یا مہمل ہے یا ان کا نام ہی نہیں پایا جاتا۔اس کے علاوہ امام صادق فرماتے ہیں ہم جو کچھ حکم شرعی تمھیں بیان کریں اس کی سند ہم سے قرآن اور سنت رسول سے طلب کریں کہ یہ قرآن میں کہاں اور سنت رسول میں کہاں ذکر ہوا ہے اگر سند نہ مل سکے تو سمجھ لیں ہم سے منسوب احادیث کا حکم غلط ہے۔
ہر حکم شرعی کا قرآن یا سنت رسول سے انتساب ضروری اور ناگزیر ہے چنانچہ اصول کافی ج 1 صفحہ 59 باب فصل علم میں حدیث الرد الی الکتاب والسنہ میں آٹھ یا نو احادیث نقل کی گئی ہیں۔ان کے پاس امام جعفر صادق کے بعد پھر خاموشی چھا جاتی ہے اور اچانک شیخ صدوق کا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے جنہوں نے جعلی راویوں سے مستند احادیث کی خود ساختگی کی شرمندگی سے بچنے کیلے تمام اسناد کو حذف کر کے خود ضمانت دی اور حدیث بلا سند کو پیش کیا ہے۔آپ کے بعد والوں نے ان احادیث کو بھی حذف کیا اور اپنی مرضی سے فتوی دینے کا سلسلہ شروع کیا اور یقین دہانی کرائی کہ ہم آپ کو قرآن و سنت سے مستنبط فتوی دیں گے۔جب ان سے سند کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو یہ فقیہ اور ان کے وکلاء چڑ جاتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں۔اس غوغا اور چڑ کی چھتری سے استفادہ کرتے ہوئے یہ قرآن و سنت کے خلاف فتوی دینے میں سرگرم ہوئے ہیں چنانچہ مناسک حج و عمرہ میں اپنی مصلحت تراشی سہولتوں کے بہانے حج کو قرآن و سنت کے دائرے سے نکال کر اپنی خواہشات کے کنارے لگایا ہے۔اب جو بھی شخص اس بارے میں زبان کھولتا ہے سوال کرتا ہے تو عتاب کا نشانہ بنتا ہے۔یہ اپنے ساتھ لائے ہوئے حجاج کو بکرا بنا کر بیوقوف بھی بناتے ہیں۔انہیں یہ احکامات سنائے جاتے ہیں کہ کسی کی بات نہ سنیں کسی کی مجلس و محفل میں نہ بیٹھیں۔حرم میں نہ جائیں۔یہاں تک کہ ہمارے دوست دلنواز صاحب کا کہنا ہے جو ان کی کارکردگی کے خلاف بات کرتے ہیں وہ علمائے یہود ہیں"۔

(صفحہ 138 معجم حج و حجاج استاد علی شرف الدین صاحب)

آغا علی شرف الدین علی آبادی صاحب کی کتابیں Names of Books Written by Agha Ali Sharfuddin Mousvi

Agha Sharfuddin wrote following 65 books
آغا علی شرف الدین علی آبادی صاحب کی لکھی گئی 70 کتابوں میں سے 65 کے نام یہ ہیں
1-قرآن سے پوچھو
2-انبیاء قرآن(محمد مسطفی)
3-مکتب تشیع اور قرآن
4-سوالات و جوابات معارف قرآن
5-قرآن اور مستشرقین
6-قرآن میں مذکر و مونث
7-قرآن میں شعر و شعراء
8-انبیاء قرآن(آدم،نوح،ابراہیم)
9-انبیاء قرآن(موسی ،عیسی)
10-اہل ذکر کے جوابات
11-قرآن میں امام و امت
12- تفسیر عاشورا
13- تفسیر سیاسی قیام امام حسین
14- قیام امام حسین کا جغرافیائی جائزہ
15- اسرار قیام امام حسین
16- عزاداری کیوں؟
17- انتخاب مصائب۔ترجیحات-ترمیمات
18- مثالی عزاداری کیسے منائیں؟
19- عنوان عاشورا
20- قیام امام حسین غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں
21- معجم کتب مولفین امام حسین
22- حج و عمرہ قرآن و سنت کی روشنی میں
23- عقائد و رسومات شیعہ
24- مسجد
25- آمریت کے خلاف آئمہ طاہرین کی جدو جہد
26- افق گفتگو
27- مدارس دینی و حوزات علمیہ پر نگارشات
28- ہماری ثقافت و سیاست کیا ہے؟اور کیا ہونی چاہیے؟
29- شکوؤں کے جواب
30- مجلہ اعتقاد
31- شکوہ جواب شکوہ
32- فصل جواب
33- جواب سے لاجواب
34- عوامی عدالت کے شمارے
35- مجلہ فصلنامہ عدالت
36- موضوعات متنوعہ
37- تعدد قرآت مترادف تحریفات
38- فرقوں میں جذور شرک و الحاد
39- ادوار تاریخ اسلام
40- اصول عزاداری
41- مکتب تشیع اور قرآن
42- تفسیر دعائے ندبہ
43- کشور اعتقاد
44- فلسفہ دعا
45- فلسفہ نماز
46- قرآن شناسی
47- سیرت شناسی انبیاء و آئمہ طاہرین
48- علم اور دین
49- دفاعیات
50- متفرقات
51- معجم حج و حجاج
52۔ دور شدور شادت
53- مدخل الدرسۃ التاریخ
54- دور ضالہ
55- دور لحادہ
56- انبیاء قرآن(لوط،صالح،یعقوب،یوسف)
57۔ دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی
58۔ تفسیر شہید الصدر
59- حضرات حسنین
60۔ ترجمات
61- مکتوبات شرف الدین
62- صرخہ حق
63۔۔ جوابات صارخۃ
64۔ قرآنیات
تحفہ منورین-65

آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کون ہیں؟؟ Who is Agha Syed Ali Sharfuddin Mousvi Baltistani

آغا سید علی شرف الدین موسوی صاحب کی شخصیت پاکستان کے علماء (بشمول شیعہ و سنی) میں احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔آپ اس دور کے ایک عظیم مصلح اور اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں۔آپ قرآن اور اسلام ناب محمدی کی دعوت دینے والے اسکالرز میں سے ہیں۔مرحوم مولانا اسحاق فیصل آبادی جو اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے،آپ کے ان سے بھی دوستانہ روابط تھے۔آج بھی علامہ سید علی شرف الدین موسوی پاکستان میں فرقہ بندی کی بجائے صرف اسلام کی طرف دعوت دینے والے گنے چنے اسلامی اسکالرز و علماء میں سے ہیں۔


علامہ سید علی شرف الدین موسوی صاحب کی جائے پیدائش بلتستان کے ایک محلہ علی آباد شیگر کی ہے، جو مشہور پہاڑی چوٹی K-2 کے گردونواح کی ایک وادی ہے۔ ان کی سن پیدائش١٣٦٠ ہجری (1942) ہے. آپ بلتستان کے ایک شیعہ سادات کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ موسوی سید ہونے کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ موسوی لکھتے ہیں۔ آپ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے علاقے بلتستان، شمالی پاکستان، سے حاصل کی۔اس کے بعد اعلی اسلامی تعلیم کے حصول کے لئے ملک سے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔

اور آغا صاحب حصول علم کے لئے ١٣٧٧ ہجری کو نجف اشرف پہنچے۔اس کے علاوہ ایران بھی گئے۔ آپ کے استادون میں آیت اللہ صادقی تہرانی شامل رہے۔اور دین کو ثقل اکبر قرآن سے سمجھنے کی خواہش ان کی شاگردی نے ہی پیدا کی۔آغا صاحب نجف کے مدرسوں میں قرآن و حدیث کو شامل نہ کرنے کا ہر مقام پر شکوہ کرتے رہے ہیں اور یہ شکوہ صرف نجف تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مدارس قم بھی اس میں شامل ہیں۔۔عراق میں آپ کی ہمنشینی آیت اللہ باقر الصدر سے بھی رہی۔


آغا صاحب تقریبا ١٢ سال کے بعد نجف سے پاکستان آئے،آغا صاحب نے جس ادارے کی بنیاد ڈالی اس کا نام دارالثقافہ الاسلامیہ ہے یہ ادارے اپنے قیام سے اب تک کسی قسم سے بھی مرجعییت کے ذیر تسلط نہیں رہا اور نہ اس ادارے کو چلانے کے لئے کسی قسم کے خمس کا سہاری لیا گیا۔


پاکستان آنے کے بعد ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان" کے تحت انہوں نے مذھب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔انہوں نے پاکستان میں امام مھدی علیہ السلام سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب اور "دعائے ندبہ" کو بھی عام کیا ۔اس کے علاوہ عربی و فارسی کے شیعہ مسلک سے متعلق کتب "شیعت کا آغاز کب اور کیسے"،تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ" اور" پھر میں ہدایت پا گیا"،"فلسفہ امامت"،"مذہب اہل بیت"،"شب ہاے پشاور"،"اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں" اوراس کے علاوہسینکڑوں کتب کے اردو ترجمہ کا بھی اہتمام کیا۔

آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔

آغا صاحب نے ہی سب سے پہلے کراچی میں قرآن فہمی کے پروگرام کرائے اور قرآن فہمی کے عنوان سے مختلف مقابلے بھی کرائے۔آغا صاھب نے ہی سب سے پہلے کراچی میں دعائے ندبہ کی محافل کا آغاز کیا۔دروس کا سلسلہ بھی آغا صاحب کے ادارے میں طویل عرصے جاری رہا- جس کے زریعے سینکڑوں عاشقان دین مستفید ہوتے رہے-

انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔اس سیمینار میں ملک کے علماء و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔ 1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا،جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔

علامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف عزاداری اور قیام امام حسین علیہ السلامسے متعلق کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی "اللولو والمرجان" کا اردو ترجمہ "آداب اہل منبر" اور آیت اللہ یزدی کی "حسین شناسی" جیسی کتب کے ترجمے شایع کیں۔اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ "عزاداری کیوں"،ا"نتخاب مصائب امام حسین"،"قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ"،"تفسیر عاشورا" وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چناچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ" اور "شیعہ اہل بیت" اور "موضوعات متنوعہ" لکھی۔اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔

آغا صاحب کی کتابوں اور بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علماء ان کے مخالف ہو گئے۔بہت سے علماء نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔ان کی کتب پر آج بھی پابندی ہے۔لیکن برقی کتب ان کی آفیشل ویب سائیٹ "صبغۃ الاسلام"پر دستیاب ہیں۔

آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔ اس سے پہلے بھی "شیعہ اہل بیت نامی کتاب میں اور حالیہ کتاب "دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی " میں بھی شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کرایا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی شیعہ علی کا نظریہ اپنی کتاب "تشیع علوی و تشیع صفوی" میں پیش کر چکے ہیں۔اس کے بعد ڈاکٹر موسی الموسوی نے بھی اپنی کتاب "الشیعہ و التصحیح" میں شیعوں کو "علی کے شیعہ" اور خرافات سے پر شیعہ میں تقسیم کیا ہے۔آیت اللہ ابو الفضل برقعی قمی اور حیدر علی قلمداران بھی اپنے نام کے ساتھ "شیعہ اثنا عشری جعفری" کی بجائے "شیعہ علی"لکھتے تھے

آغا صاحب کے عقائد و نظریات

آغا صاحب چند مخصوص عقائد و نظریات یہ ہیں۔
امامت کو نص قرآنی سے نہیں مانتے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ نص وہ ہوتی ہے جس میں کوئی ابہام نہ ہو اور جب امت کے ایک بڑے طبقے نے غدیر خم کے موقع پر رسول اکرم صہ کا خطبہ سننے کے باوجود مولا کے معنوں میں اختلاف کیا تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ نص نہیں ہے۔اس کے علاوہ آغا صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ امام علی عہ ہمیشہ اپنی فضیلت کو معیار بنا کر خلافت پر اپنے حق کو ثابت کیا ہے اور نص کا زکر نہیں کیا۔اس کے علاوہ امام علی عہ کا خلافت کی نامزدگی کے لیے ہونے والے ہر طریقہ کار میں شامل ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے۔اہلیبیت عہ کے خاندان کے مختلف لوگوں نے امامت کا دعویٰ کیا۔
اس کے علاوہ آغا صاحب تقلید غیر مشروط کے مخالف ہیں۔
توسل کے مخالف ہیں۔
متعہ کو غلط اور حرام سمجھتے ہیں۔
تقیہ کو درست نہیں سمجھتے۔
امام مھدی سے متعلق روایات کو صحیح نہیں سمجھتے۔
قبروں پہ تعمیرات کو درست نہیں سمجھتے۔
فرقہ کی بجائے صرف اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔
توحید پہ بہت زور دیتے ہیں۔
خلفاءراشدین کے دور کو بہترین اسلامی دور قرار دیتے ہیں۔
خلفاءواصحاب رسول پر سب و شتم اور تبراء و لعن کو جائز نہیں سمجھتے۔
علم،ذوالجناح،زنجیر زنی اور دیگر رسومات عزاداری کو بھی غیر شرعی سمجھتے ہیں۔

علمی و ادبی خدمات

آغا سید علی شرف الدین موسوی کی لکھی گئی کتابوں کے نام یہ ہیں۔
قرآن سے پوچھو
انبیاء قرآن(محمد مسطفی)
مکتب تشیع اور قرآن
سوالات و جوابات معارف قرآن
قرآن اور مستشرقین
قرآن میں مذکر و مونث
قرآن میں شعر و شعراء
انبیاء قرآن(آدم،نوح،ابراہیم)
انبیاء قرآن(موسی ،عیسی)
قرآن میں امام و امت
تفسیر عاشورا
تفسیر سیاسی قیام امام حسین
قیام امام حسین کا جغرافیائی جائزہ
اسرار قیام امام حسین
عزاداری کیوں؟
انتخاب مصائب۔ترجیحات-ترمیمات
مثالی عزاداری کیسے منائیں؟
عنوان عاشورا
قیام امام حسین غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں
معجم کتب مولفین امام حسین
حج و عمرہ قرآن و سنت کی روشنی میں
عقائد و رسومات شیعہ
مسجد
آمریت کے خلاف آئمہ طاہرین کی جدو جہد
افق گفتگو
مدارس دینی و حوزات علمیہ پر نگارشات
ہماری ثقافت و سیاست کیا ہے؟اور کیا ہونی چاہیے؟
شکوؤں کے جواب
مجلہ اعتقاد
شکوہ جواب شکوہ
فصل جواب
جواب سے لاجواب
عوامی عدالت کے شمارے
مجلہ فصلنامہ عدالت
موضوعات متنوعہ
تعدد قرآت مترادف تحریفات
فرقوں میں جذور شرک و الحاد
ادوار تاریخ اسلام


تنقید

آپ کے کچھ مسلکی مخالفین آپ کو امت کے لیے فتنہ گردانتے ہیں۔ ناقدین کی نظر میں آپ متنازعہ شخصیات میں سے ہیں ,دقائق اسلام نامی ، کتاب میں آیت اللہ محمد حسین نجفی نے آپ پر عصمت آئمہ،امام مہدی اور تقلید کے حوالے سے آپ کے نظریات کی وجہ سے تنقید کی۔
کچھ علماء کرام آپ کے امام مہدی سے متعلق نظریات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
اتحاد امت کی کوششوں اور سنی علماء سے اچھے تعلقات کی بناء پر اہل سنت مخالف گروہوں نے ان پر تنقید کی۔
اماموں کی عصمت اور منصوص من اللہ کا انکار کی وجہ سے بعض علماء اہل تشیع نے آپ کو اہل تشیع سے خارج قرار دیا۔

نوٹ:آغا صاھب کی کتابوں کی تعداد 70 تک ہو گئی ہیں۔

آغا صاحب سے متعلق مزید معلومات یا گوشہ اگر آپ جانتے ہیں تو کمنٹ میں ذکر کریں تاکہ اس کو مزید بہتر کیا جا سکے۔جزاک اللہ

الحمد للہ علی ما ھدانا۔
والسلام

صحابہ کرام قرآنی آیات کی روشنی میں

"حمد و ثناء اس ذات کے لئے لائق سزاوار ہے جسے ہمیں نبی کریم ص کی دعوت میں سبقت و حدت میں،خلوت و جلوت میں انیس مہاجر و مجاہد ایثار و قربان ہونے والوں سے نفرت و بیزار کرنے والوں میں شمار نہیں کیا۔جن کی شان میں یہ آیات ہیں:

وَمِنَ ٱلْأَعْرَ‌ابِ مَن يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ‌ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُ‌بَـٰتٍ عِندَ ٱللَّهِ وَصَلَوَ‌ٰتِ ٱلرَّ‌سُولِ ۚ أَلَآ إِنَّهَا قُرْ‌بَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ ٱللَّهُ فِى رَ‌حْمَتِهِۦٓ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ‌ۭ رَّ‌حِيمٌ ﴿٩٩ توبہ﴾
ان ہی اعراب میں وہ بھی ہیں جو ا للہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے انفاق کو خدا کی قربت اور رسول کی دعائے رحمت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور بیشک یہ ان کے لئے سامانِ قربت ہے عنقریب خدا انہیں اپنی رحمت میں داخل کرلے گا کہ وہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی ہے
وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَـٰجِرِ‌ينَ وَٱلْأَنصَارِ‌ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَـٰنٍ رَّ‌ضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَ‌ضُوا۟ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِ‌ى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ‌ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ ذَ‌ٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿ توبہ١٠٠﴾
اور مہاجرین و انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خدا سے راضی ہیں اور خدا نے ان کے لئے وہ باغات مہیا کئے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

إِنَّ ٱللَّهَ ٱشْتَرَ‌ىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَ‌ٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلْجَنَّةَ ۚ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِى ٱلتَّوْرَ‌ىٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ وَٱلْقُرْ‌ءَانِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِۦ مِنَ ٱللَّهِ ۚ فَٱسْتَبْشِرُ‌وا۟ بِبَيْعِكُمُ ٱلَّذِى بَايَعْتُم بِهِۦ ۚ وَذَ‌ٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿ توبہ١١١﴾
بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنّت کے عوض خریدلیا ہے کہ یہ لوگ راہ هخدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ وعدئہ برحق توریت ,انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنی عہد کا پورا کرنے والا کون ہوگا تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خوشیاں مناؤ جو تم نے خدا سے کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے

لَّقَد تَّابَ ٱللَّهُ عَلَى ٱلنَّبِىِّ وَٱلْمُهَـٰجِرِ‌ينَ وَٱلْأَنصَارِ‌ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُ فِى سَاعَةِ ٱلْعُسْرَ‌ةِ مِنۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِ‌يقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُۥ بِهِمْ رَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١١٧ توبہ﴾
بیشک خدا نے پیغمبر اور ان مہاجرین و انصار پر رحم کیا ہے جنہوں نے تنگی کے وقت میں پیغمبر کا ساتھ دیا ہے جب کہ ایک جماعت کے دلوں میں کجی پیدا ہورہی تھی پھر خدا نے ان کی توبہ کو قبول کرلیا کہ وہ ان پر بڑا ترس کھانے والا اور مہربانی کرنے والا ہے

وَلَا يُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَ‌ةً وَلَا كَبِيرَ‌ةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ ٱللَّهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿١٢١توبہ ﴾
اور یہ کوئی چھوٹ یا بڑا خرچ راسِ خدا میں نہیں کرتے ہیں اور نہ کسی وادی کو طے کرتے ہیں مگر یہ کہ اسے بھی ان کے حق میں لکھ دیا جاتا ہے تاکہ خدا انہیں ان کے اعمال سے بہتر جزا عطا کرسکے

لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿ سورہ حشر٨﴾
یہ مال ان مہاجر فقرائ کے لئے بھی ہے جنہیں ان کے گھروں اور اموال سے نکال باہر کردیا گیا ہے اور وہ صرف خدا کے فضل اور اس کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خدا و رسول کی مدد کرنے والے ہیں کہ یہی لوگ دعوائے ایمان میں سچے

ابتدائے اسلما کے کٹھن دور میں انہی ذوات نے انتہائی فراخدلی اور حوصلے کے ساتھ نبی کریم کا ساتھ دیا۔یہی وہ ذوات تھیں جو بغیر کسی لالچ اپنی جان دینے کیلے فراخدلی سے آگے بڑھیں اور درخت کے نیچے رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی جس پر اللہ تبارک وتعالی نے ان کی شان میں یہ آیت نازل کی۔

جاری ہوں گی اور جو روگردانی کرے گا وہ اسے دردناک عذاب کی سزا دے گا
لَّقَدْ رَ‌ضِىَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَ‌ةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَـٰبَهُمْ فَتْحًا قَرِ‌يبًا ﴿١٨فتح﴾
یقینا خدا صاحبانِ ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انہیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی۔

رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ ۔(سورہبینہ آیت 8)
اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے۔

"
(کتاب اٹھو قرآن کا دفاع کرو 21 و 22 آغا علی شرف الدین علی آبادی)