Saturday 5 April 2014

آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کون ہیں؟؟ Who is Agha Syed Ali Sharfuddin Mousvi Baltistani

آغا سید علی شرف الدین موسوی صاحب کی شخصیت پاکستان کے علماء (بشمول شیعہ و سنی) میں احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔آپ اس دور کے ایک عظیم مصلح اور اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں۔آپ قرآن اور اسلام ناب محمدی کی دعوت دینے والے اسکالرز میں سے ہیں۔مرحوم مولانا اسحاق فیصل آبادی جو اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے،آپ کے ان سے بھی دوستانہ روابط تھے۔آج بھی علامہ سید علی شرف الدین موسوی پاکستان میں فرقہ بندی کی بجائے صرف اسلام کی طرف دعوت دینے والے گنے چنے اسلامی اسکالرز و علماء میں سے ہیں۔


علامہ سید علی شرف الدین موسوی صاحب کی جائے پیدائش بلتستان کے ایک محلہ علی آباد شیگر کی ہے، جو مشہور پہاڑی چوٹی K-2 کے گردونواح کی ایک وادی ہے۔ ان کی سن پیدائش١٣٦٠ ہجری (1942) ہے. آپ بلتستان کے ایک شیعہ سادات کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ موسوی سید ہونے کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ موسوی لکھتے ہیں۔ آپ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے علاقے بلتستان، شمالی پاکستان، سے حاصل کی۔اس کے بعد اعلی اسلامی تعلیم کے حصول کے لئے ملک سے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔

اور آغا صاحب حصول علم کے لئے ١٣٧٧ ہجری کو نجف اشرف پہنچے۔اس کے علاوہ ایران بھی گئے۔ آپ کے استادون میں آیت اللہ صادقی تہرانی شامل رہے۔اور دین کو ثقل اکبر قرآن سے سمجھنے کی خواہش ان کی شاگردی نے ہی پیدا کی۔آغا صاحب نجف کے مدرسوں میں قرآن و حدیث کو شامل نہ کرنے کا ہر مقام پر شکوہ کرتے رہے ہیں اور یہ شکوہ صرف نجف تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مدارس قم بھی اس میں شامل ہیں۔۔عراق میں آپ کی ہمنشینی آیت اللہ باقر الصدر سے بھی رہی۔


آغا صاحب تقریبا ١٢ سال کے بعد نجف سے پاکستان آئے،آغا صاحب نے جس ادارے کی بنیاد ڈالی اس کا نام دارالثقافہ الاسلامیہ ہے یہ ادارے اپنے قیام سے اب تک کسی قسم سے بھی مرجعییت کے ذیر تسلط نہیں رہا اور نہ اس ادارے کو چلانے کے لئے کسی قسم کے خمس کا سہاری لیا گیا۔


پاکستان آنے کے بعد ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان" کے تحت انہوں نے مذھب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔انہوں نے پاکستان میں امام مھدی علیہ السلام سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب اور "دعائے ندبہ" کو بھی عام کیا ۔اس کے علاوہ عربی و فارسی کے شیعہ مسلک سے متعلق کتب "شیعت کا آغاز کب اور کیسے"،تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ" اور" پھر میں ہدایت پا گیا"،"فلسفہ امامت"،"مذہب اہل بیت"،"شب ہاے پشاور"،"اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں" اوراس کے علاوہسینکڑوں کتب کے اردو ترجمہ کا بھی اہتمام کیا۔

آغا صاحب نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی قیادت کے لیئے سنا جاتا رہا۔

آغا صاحب نے ہی سب سے پہلے کراچی میں قرآن فہمی کے پروگرام کرائے اور قرآن فہمی کے عنوان سے مختلف مقابلے بھی کرائے۔آغا صاھب نے ہی سب سے پہلے کراچی میں دعائے ندبہ کی محافل کا آغاز کیا۔دروس کا سلسلہ بھی آغا صاحب کے ادارے میں طویل عرصے جاری رہا- جس کے زریعے سینکڑوں عاشقان دین مستفید ہوتے رہے-

انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔اس سیمینار میں ملک کے علماء و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔ 1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا،جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔

علامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف عزاداری اور قیام امام حسین علیہ السلامسے متعلق کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی "اللولو والمرجان" کا اردو ترجمہ "آداب اہل منبر" اور آیت اللہ یزدی کی "حسین شناسی" جیسی کتب کے ترجمے شایع کیں۔اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ "عزاداری کیوں"،ا"نتخاب مصائب امام حسین"،"قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ"،"تفسیر عاشورا" وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چناچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ" اور "شیعہ اہل بیت" اور "موضوعات متنوعہ" لکھی۔اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔

آغا صاحب کی کتابوں اور بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علماء ان کے مخالف ہو گئے۔بہت سے علماء نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔ان کی کتب پر آج بھی پابندی ہے۔لیکن برقی کتب ان کی آفیشل ویب سائیٹ "صبغۃ الاسلام"پر دستیاب ہیں۔

آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔ اس سے پہلے بھی "شیعہ اہل بیت نامی کتاب میں اور حالیہ کتاب "دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی " میں بھی شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کرایا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی شیعہ علی کا نظریہ اپنی کتاب "تشیع علوی و تشیع صفوی" میں پیش کر چکے ہیں۔اس کے بعد ڈاکٹر موسی الموسوی نے بھی اپنی کتاب "الشیعہ و التصحیح" میں شیعوں کو "علی کے شیعہ" اور خرافات سے پر شیعہ میں تقسیم کیا ہے۔آیت اللہ ابو الفضل برقعی قمی اور حیدر علی قلمداران بھی اپنے نام کے ساتھ "شیعہ اثنا عشری جعفری" کی بجائے "شیعہ علی"لکھتے تھے

آغا صاحب کے عقائد و نظریات

آغا صاحب چند مخصوص عقائد و نظریات یہ ہیں۔
امامت کو نص قرآنی سے نہیں مانتے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ نص وہ ہوتی ہے جس میں کوئی ابہام نہ ہو اور جب امت کے ایک بڑے طبقے نے غدیر خم کے موقع پر رسول اکرم صہ کا خطبہ سننے کے باوجود مولا کے معنوں میں اختلاف کیا تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ نص نہیں ہے۔اس کے علاوہ آغا صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ امام علی عہ ہمیشہ اپنی فضیلت کو معیار بنا کر خلافت پر اپنے حق کو ثابت کیا ہے اور نص کا زکر نہیں کیا۔اس کے علاوہ امام علی عہ کا خلافت کی نامزدگی کے لیے ہونے والے ہر طریقہ کار میں شامل ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے۔اہلیبیت عہ کے خاندان کے مختلف لوگوں نے امامت کا دعویٰ کیا۔
اس کے علاوہ آغا صاحب تقلید غیر مشروط کے مخالف ہیں۔
توسل کے مخالف ہیں۔
متعہ کو غلط اور حرام سمجھتے ہیں۔
تقیہ کو درست نہیں سمجھتے۔
امام مھدی سے متعلق روایات کو صحیح نہیں سمجھتے۔
قبروں پہ تعمیرات کو درست نہیں سمجھتے۔
فرقہ کی بجائے صرف اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔
توحید پہ بہت زور دیتے ہیں۔
خلفاءراشدین کے دور کو بہترین اسلامی دور قرار دیتے ہیں۔
خلفاءواصحاب رسول پر سب و شتم اور تبراء و لعن کو جائز نہیں سمجھتے۔
علم،ذوالجناح،زنجیر زنی اور دیگر رسومات عزاداری کو بھی غیر شرعی سمجھتے ہیں۔

علمی و ادبی خدمات

آغا سید علی شرف الدین موسوی کی لکھی گئی کتابوں کے نام یہ ہیں۔
قرآن سے پوچھو
انبیاء قرآن(محمد مسطفی)
مکتب تشیع اور قرآن
سوالات و جوابات معارف قرآن
قرآن اور مستشرقین
قرآن میں مذکر و مونث
قرآن میں شعر و شعراء
انبیاء قرآن(آدم،نوح،ابراہیم)
انبیاء قرآن(موسی ،عیسی)
قرآن میں امام و امت
تفسیر عاشورا
تفسیر سیاسی قیام امام حسین
قیام امام حسین کا جغرافیائی جائزہ
اسرار قیام امام حسین
عزاداری کیوں؟
انتخاب مصائب۔ترجیحات-ترمیمات
مثالی عزاداری کیسے منائیں؟
عنوان عاشورا
قیام امام حسین غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں
معجم کتب مولفین امام حسین
حج و عمرہ قرآن و سنت کی روشنی میں
عقائد و رسومات شیعہ
مسجد
آمریت کے خلاف آئمہ طاہرین کی جدو جہد
افق گفتگو
مدارس دینی و حوزات علمیہ پر نگارشات
ہماری ثقافت و سیاست کیا ہے؟اور کیا ہونی چاہیے؟
شکوؤں کے جواب
مجلہ اعتقاد
شکوہ جواب شکوہ
فصل جواب
جواب سے لاجواب
عوامی عدالت کے شمارے
مجلہ فصلنامہ عدالت
موضوعات متنوعہ
تعدد قرآت مترادف تحریفات
فرقوں میں جذور شرک و الحاد
ادوار تاریخ اسلام


تنقید

آپ کے کچھ مسلکی مخالفین آپ کو امت کے لیے فتنہ گردانتے ہیں۔ ناقدین کی نظر میں آپ متنازعہ شخصیات میں سے ہیں ,دقائق اسلام نامی ، کتاب میں آیت اللہ محمد حسین نجفی نے آپ پر عصمت آئمہ،امام مہدی اور تقلید کے حوالے سے آپ کے نظریات کی وجہ سے تنقید کی۔
کچھ علماء کرام آپ کے امام مہدی سے متعلق نظریات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
اتحاد امت کی کوششوں اور سنی علماء سے اچھے تعلقات کی بناء پر اہل سنت مخالف گروہوں نے ان پر تنقید کی۔
اماموں کی عصمت اور منصوص من اللہ کا انکار کی وجہ سے بعض علماء اہل تشیع نے آپ کو اہل تشیع سے خارج قرار دیا۔

نوٹ:آغا صاھب کی کتابوں کی تعداد 70 تک ہو گئی ہیں۔

آغا صاحب سے متعلق مزید معلومات یا گوشہ اگر آپ جانتے ہیں تو کمنٹ میں ذکر کریں تاکہ اس کو مزید بہتر کیا جا سکے۔جزاک اللہ

الحمد للہ علی ما ھدانا۔
والسلام

1 comment: