Saturday 5 April 2014

فقہ جعفری میں اہل بیت سے کتنی روایات مروی ہیں؟؟

"تیسرے فریق نے ان دونوں(اہل قرآن اور اہل حدیث) کے روش کو مسترد کرتے ہوئے ایک طرف قرآن کو ناقص مبہم،مجمل اور منحرف کتاب قرار دیا اور دوسری طرف سے سنت رسول کے بارے میں بانگ دھل واشگاف الفاظ میں کہا رسول کی سنت حجت ہے لیکن ہم رسول کی سنت اصحاب سے نہیں لیتے کیونکہ تمام اصحاب عادل نہیں ہیں۔یعنی اصحاب میں فسق و فجور کے مرتکب افراد بھی تھے لہذا ہم سنت کو زہل بیت سے ہی لیتے ہیں۔اس طرح یہ گروہ اسلام کے دونوں مصدر قرآن و سنت نبوی سے لنگڑا ہے ۔ان دونوں مصادر کے انکار کے بعد مندرجہ ذیل سوالات استبصارات پیش آتے ہیں:
اہل بیت سے مراد کون ہیں اس میں کون کون سی ذوات اور ہستیاں آتی ہیں لیکن اس سوال کے جواب میں مضطرب پراگندگی سے دوچار ہیں ۔کہتے ہیں اہل بیت سے مراد حضرات امیرالمومنین حضرات حسنین فاطمہ زہراء امام سجاد یک بعد دیگر اہل بیت کے مصداق ہیں۔لیکن آپ ان کے 51 ابواب فقہ میں امیرالمومنین سے جو سب سے پہلے اہل بیت کے مصداق ہیں جو رسول اللہ کی بعثت سے پہلے ان کے ساتھ رہے۔آپ کے پروردہ ہیں آپ کے حضر و سفر میں آپ کے ساتھ رہے ہیں۔آپ کے بعد تیس سال زندگی گزاری ہے اور چار سال خلافت پر رہے بتائیں ان سے کتنی احادیث منسوب ہیں؟
2-حضرت فاطمہ زہراء جو بعثت سے پہلے یا ابتدائی سالوں میں پیدا ہوئی ہیں۔تمام ادوار رسالت میں آپ کو دیکھا ہے آپ کی کتابوں میں حضرت زہراء سے کتنی احادیث موجود ہیں؟
3۔آپ قطعی طور پر بعض اصھاب کے عادل ہونے کے معتقد ہیں آپ بتا دیں آیا ان سے سنت رسول لینے میں کیا جھجک ہے مثلا سلمان سے اباذر مقداد سے ابن عباس سے آپ نے کتنی روایات نقل کیا ہے؟
4۔حضرات حسنین جنہوں نے ہجرت کے آخری سالوں کو کمال درک و بصر و بصیرت کے ساتھ درک کیا ،ان دو ذوات سے کتنی احادیث فقہ میں موجود ہیں۔اس کے بعد تابعین میں امام سجاد ہیں ان کی طرف سے ان سے منسوب کتنی احادیث ہیں۔
ان تمام ابواب فقہ کیلے ایک معتد بہ مقابل مقدار کافی احادیث نہ ملنے کے بعد انہوں نے چھلانگ مار کر کہا کہ تقیہ اور سخت پابندیوں کی وجہ سے اندرون خانہ محصور ہونے کی وجہ سے یہ ذوات احکام شرعیہ کو بیان نہیں کر سکے۔اور یہ کام کرنے کا موقع صرف امام جعفر صادق کو نصیب ہوا۔

بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان جاری اقتدار کی رسہ کشی سے آپ کو ایک قسم کی آزادی ملی جس میں آپ نے بھرپور طریقہ سے حکم شریعت کو بیان کیا۔لہذا ہم دین کو امام جعفر صادق سے لیتے ہیں۔اسی وجہ سے ہم خود کو جعفری سے انتساب کرتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ:
آپ دین و شریعت کو امام جعفر صادق سے لیتے ہیں لیکن نام سب اہل بیت کا لیتے ہیں اس کی کیا منطق ہے؟امام جعفر صادق رسول اللہ سے نہیں ملے۔تو آپ نے یہ تمام احکام شرعی کہاں سے اخذ کئے۔اگر کہتے ہیں امام نے یہ سب ازروئے وحی اللہ سے لیا چنانچہ اس سلسلہ میں گروہ آئمہ کے وحی سے متصل ہونے کا سلسلہ باقی رہنے کا دعوی بھی کرتے ہیں۔جب کہ تسلسل وحی تسلسل نبوت کی ایک کڑی ہے اور قرآن اور امت کی وحدت اجماع کے تحت تسلسل نبوت سورہ نساء آیت 165 کے تحت منقطع ہے۔نہج البلاغہ میں امیر المومنین فرماتے ہیں حجت نبی کے بعد ختم ہوئی ہے۔لہذا امام جعفر صادق نے اتنی احادیث کس سے سنی ہیں؟؟
اگر امام محمد باقر اور امام سجاد سے مروی ہیں تو کیوں امام باقر اور امام زین العابدین سے اتنی احادیث نہیں،اگر امام زین العابدین نے امام حسین سے سنی ہیں تو کیوں امام حسین سے اتنی احادیث مروی نہیں ہیں۔یہ کہنا کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان اقتدار کی کشمکش میں انہیں موقع ملا اور آپ نے درس کا بندوبست کیا۔ایسی کوئی تاریخ بتائیں جب اتنے افراد مدینہ میں آپ کے حلقہ درس میں شریک ہوئے۔ان افراد اور جائے درس کا ذکر کریں،مسجد نبوی پر بنی امیہ کے دور میں انہی کا قبضہ تھا اور بنی عباس کے دور میں بنی عباس کا تو کیا امام صادق نے کوفہ کی مسجد میں درس دیا ہے اگر ایسا ہے تو وہ تاریخ بتایں جب امام کوفہ آئے اور کیوں کوفہ تشریف لائے اور کس سن میں تشریف لائے اس کا تاریخی حوالہ دیں۔

اگلا سوال امام جعفر صادق سے نقل کرنے والے راوی کتنے ہیں ان راویوں کا حال بھی بیان کریں۔ہم نے اس کی وضاحت اپنی کتاب "شیعہ اہل بیت" میں بیان کی ہے۔جن راویوں کو آپ نے امام جعفر صادق سے اتنی ضحنیم احادیث نقل کرنے کا دعوی کیا ہے ان راویوں کا نام آپ کے معاجیم رجال میں یا مجہول یا مہمل ہے یا ان کا نام ہی نہیں پایا جاتا۔اس کے علاوہ امام صادق فرماتے ہیں ہم جو کچھ حکم شرعی تمھیں بیان کریں اس کی سند ہم سے قرآن اور سنت رسول سے طلب کریں کہ یہ قرآن میں کہاں اور سنت رسول میں کہاں ذکر ہوا ہے اگر سند نہ مل سکے تو سمجھ لیں ہم سے منسوب احادیث کا حکم غلط ہے۔
ہر حکم شرعی کا قرآن یا سنت رسول سے انتساب ضروری اور ناگزیر ہے چنانچہ اصول کافی ج 1 صفحہ 59 باب فصل علم میں حدیث الرد الی الکتاب والسنہ میں آٹھ یا نو احادیث نقل کی گئی ہیں۔ان کے پاس امام جعفر صادق کے بعد پھر خاموشی چھا جاتی ہے اور اچانک شیخ صدوق کا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے جنہوں نے جعلی راویوں سے مستند احادیث کی خود ساختگی کی شرمندگی سے بچنے کیلے تمام اسناد کو حذف کر کے خود ضمانت دی اور حدیث بلا سند کو پیش کیا ہے۔آپ کے بعد والوں نے ان احادیث کو بھی حذف کیا اور اپنی مرضی سے فتوی دینے کا سلسلہ شروع کیا اور یقین دہانی کرائی کہ ہم آپ کو قرآن و سنت سے مستنبط فتوی دیں گے۔جب ان سے سند کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو یہ فقیہ اور ان کے وکلاء چڑ جاتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں۔اس غوغا اور چڑ کی چھتری سے استفادہ کرتے ہوئے یہ قرآن و سنت کے خلاف فتوی دینے میں سرگرم ہوئے ہیں چنانچہ مناسک حج و عمرہ میں اپنی مصلحت تراشی سہولتوں کے بہانے حج کو قرآن و سنت کے دائرے سے نکال کر اپنی خواہشات کے کنارے لگایا ہے۔اب جو بھی شخص اس بارے میں زبان کھولتا ہے سوال کرتا ہے تو عتاب کا نشانہ بنتا ہے۔یہ اپنے ساتھ لائے ہوئے حجاج کو بکرا بنا کر بیوقوف بھی بناتے ہیں۔انہیں یہ احکامات سنائے جاتے ہیں کہ کسی کی بات نہ سنیں کسی کی مجلس و محفل میں نہ بیٹھیں۔حرم میں نہ جائیں۔یہاں تک کہ ہمارے دوست دلنواز صاحب کا کہنا ہے جو ان کی کارکردگی کے خلاف بات کرتے ہیں وہ علمائے یہود ہیں"۔

(صفحہ 138 معجم حج و حجاج استاد علی شرف الدین صاحب)

No comments:

Post a Comment