Sunday 5 October 2014

حج سے متعلق علامہ آغا علی شرف الدین بلتستانی کی ایک عمدہ تحریر

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

حج کتاب موسوعۃ الفقیہ تالیف ھیئۃ کبار علماء اسلام ج 17 ص 23 حج بفتح ،الحا،القصد،بعض نے قصد معظم کو کہا ہے۔ رجل محجوج،ای مقصود،اصطلاح علماء اسلام کے نزدیک قصد موضع مخصوص ،یعنی بیت اللہ الحرام و عرفۃ وہ بھی مخصوص اشہر حرم میں اعمال مخصوص طواف سعی وقوف عرفہ،شرائط مخصوص کے ساتھ،حج یکے از ارکان اسلام میں سے ہے۔حج کا نص قرآن و سنت سے ثابت ہے۔

فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ( 97 )
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پا لیا اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہلِ عالم سے بے نیاز ہے
العمران آیت 97

(کتاب الحج عبداللہ طیار ص 88 ) لغت میں کسی قصد کرنے یا اسے مقصود بنانے کو حج کہتے ہیں۔لیکن شریعت میں مخصوص ایام میں کعبہ کے گرد و نواح میں مخصوص اعمال بجا لانے کو حج کہتے ہیں۔حج کی دو قسمیں ہیں ایک حج اکبر ہے اور دوسرا حج اصغر ہے جسے عنرہ کہتے ہیں۔
قارئین کرام حج اپنی جگہ چندین عناصر سے مرکب ہے۔اس کا ہر عنصر دوسرے سے وصل ہے۔ جسے ہم ان نکات میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1- حج کا پہلا عنصر نکانی ہے یعنی اس کی جائے وقوع حدود اربعہ مساحت اربعہ کیا ہے؟ حاجی کا پہلا قصد کعبہ ہوتا ہے اس کی مساحت کتنی ہے، یہ بیت اپنے طول و عرض اور ارتفاع پر مشتمل ہے،صفا و مروہ کہاں واقع ہیں اور کتنی نسافت طول و عرض پر مشتمل ہیں،اسی طرح مشعر الحرام منی رمی جمرات یہ سب اس کے عنصر مکانی ہیں۔
2- عنصر زمانی یعنی حج کا آغاز کب سے ہوا ہے؟ بعض نے آدم صفی اللہ کے زمین پر بسنے کے بعد سے ہونے کا کہا ہے۔لیکن منتقن یقین یہ ہے کہ ابراہیم ع سے ہوا۔اس دور میں اس کا تاریخی پس منظر کیا تھا۔اس کے لئے اس عنصر میں دیکھنا ہوگا کہ اس کی تاریخ اور عمق کتنی گہری ہے۔
3- فقہ حج کتنے احکامات پر مشتمل ہے ۔واجب،مستھب،کراہت وغیرہ اس میں شامل ہیں۔ اس کا فقہی عنصر ہے۔
4- عنصر رجالی ہے۔یعنی یہ عمل کس کی تاسی میں کریں گے،یہ عمل کن شخصیات کی طرف برگشت کرتا ہے۔اس میں سر فہرست قابل تقلید و نمونہ حضرت ابراہیم ع اور آپ کے بعد آنے والے سلسلہ کے انبیاء بالخصوص خاتم الانبیاء محمد مصطفی ص ہیں۔ان کے بعد عنصر رجالی میں خلفائے راشدین رض اور آئمہ طاہرین ع،اصحاب کبار اور فقہاء و مجتہدین آتے ہیں۔
ناظرین و ناظمین حج یعنی حجاج و میزبان حجاج اور مسئولین و منتظمین مہمانان بیت اللہ ہیں۔
وہ ڈاکو اور رہزن ہیں جو اس موقعہ پر اسلام و مسلمین کے خلاف اپنا حسد و کینہ نکالنے کیلےحج و حجاج کو مسخ کرنا چاہتے ہیں۔
5- عازم حج کیلے ضروری ہے کہ وہ تمام گناہوں ست توبہ و استغفار کرے۔


قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ( 30 ) نور - الآية 30
مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبردار ہے

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ( 31 ) نور - الآية 31
اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں (کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔ اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ

6- اگر اس نے کسی کے ساتھ جبر و تشدد،ظلم و زیادتی کی یا دھوکہ سے کوئی مال لیا تو وہ اس تک پہنچنائے یا ان سے معافی مانگے چاہے یہ مالی ہو یا جانی ہوں یا عزت و آبرو کے ھقوق ہوں۔
7- حج کیلے جانے کے ارادہ کے ساتھ ساتھ حج و عمرہ کیلے اپنے مال حلال سے زکوۃ دیں کیونکہ اللہ طیب ہے اور طیب کو ہی قبول کرتا ہے اور عمل صرف متقین سے ہی قبول کرتا ہے۔
8-حج و عمرہ رضا الہی اور اجر و ثواب کو ہی نظر میں رکھیں اور اسی کے مطابق اعمال انجام دیں اور ہر اس فکر و سوچ سے قول و فعل سے گریز کریں جس سے دنیا کے مال و دولت و ریاست،شہرت اور فخر و مباہات کا تصور جنم لے۔
9- جب بھی گاڑی پر سوار ہون تو بسم اللہ،کہیں اللہ کی حمد کریں،سفر کی دعا پڑھیں ذکر اللہ اور استغفار کریں اور تسبیح و تحلیل زبان پر ہمیشہ جاری رکھیں۔
10- گفتگو میں قیل و قال اور غیر ضروری باتوں سے خود کو دور رکھیں۔ مزاح اور کھیل کود سے پرہیز کریں۔
11- اپنے رفیق ساتھی کو جتنا ہو سکے اچھی نصیحت و مشورہ دیں،نیک کاموں کی دعوت دیں اور برے کاموں اور منکرات سے روکیں اور خود بھی اسے کسی قسم کی اذیت و آزار پہنچانے سے گریز کریں۔
12- کسی بھی حاجی کو دوران سفر اور دوران طواف و سعی اور رمی جمرات منی میں ذیت و آزار پہنچانے سے پرہیز کریں۔
13- حاجی وکو چاہئے کہ وہ شعائر حج کو انجام دیتے وقت اللہ کیلے خضوع اور رسول ص کی پیروی کو اپنائیں۔
14-ہر قسم کے رفث ،فسق ،جدال اور عصیان سے پرہیز کریں جدال سے مراد وہ جدال ہے جو غیر حق ہے جب کہ جدال حق نہی از منکرات، باب امر بالمعروف ہر حال میں واجب یا مستھب ہے۔
15- کوشش کریں اوقات صلاۃ میں نماز جماعت کے ساتھ انجام دینے میں سرعت کریں۔ جو شخص نماز میں سستی و کاہلی اور بے پرواہی کرتا ہے وہ شخص عمل عظیم انجام دینے سے قاصر و ناتوں ہے۔
16- حاجی اگر عورت ہے تو اس کو کسی مھرم کے ساتھ جانا چاہیے ،غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے گریز کرین غیر محرم کے ساتھ سفر کرنا باعث گناہ کبیرہ ہے لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
17- عورت جتنا بھی ہو سکے خود کو حجاب میں رکھے ،بے حجابی سے پرہیز کرے۔مناسک حج کو علم و آگاہی اور حیا کے ساتھ مردوں سے مزاحمت کئے بغیر ان سے مخلوط ہونے سے گریز کرتے ہوئے انجام دیں۔حاجیوں کو ان جمالات سے گریز کرنا چاہیے جو شعائر اللہ کے ساتھ زیب نہیں دیتے ہیں۔
18- شخص حاجی کو چاہیے تمام تر حرص و لالچ ترک کر کے مسلمانون کو نفع پہنچانے کیلے ان کے ساتھ احسان اور نیکی کرے ،ان کی مادی و معنوی معاونت کرے اور ہر ایک کی ہدیت و رہنمائی کرے ،مومن مومن کیلے اس دیوار کی مانند ہے جو ایک دوسرے کو سہار ا دیتی ہیں۔

آل عمران آیت 96
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ( 96 )
پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لیے مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو مکے میں ہے بابرکت اور جہاں کے لیے موجبِ ہدایت

اللہ نے کعبہ کی خسوصیات اور امتیازات کو بیان کرنے کے ساتھ اس بیت سے متعلق لوگوں کے ذمے عائد احکام کو بھی بیان کیا ہے جہاں تک بیت کی بات ہے ،کعبہ کے بارے میں چند نکات بیان کئے گئے ہیں۔

1- یہ بیت پہلا گھر ہے جو عام لوگون کیلے بنایا گیا ہے قرآن کریم میں تین جگہ پر اس بیت کو اللہ نے اپنا بیت کہا ہے ،جب کہ اس آیت میں اور دوسری دو آیات میں اس کو لوگوں کا بیت کہا ہے۔دونوں صورتوں میں یہ بیت کسی فرد خاص اور گروہ خاص سے مختص نہیں یہ کسی کی ملکیت نہیں بلکہ یہ عام الناس کیلے ہے۔
2-یہ گھر جو عام لوگوں کیلے بنا ہے وہ مکہ میں ہے۔
3- یہ روز افزوں بابرکت اور فوائد سے پر گھر ہے۔
4- یہ عالمین کی ہدایت کا مرکز ہے۔
5- اس گھر میں اللہ کی بہت سی نشانیاں ہیں ان میں سے ایک واضح نشانی مقام ابراہیم ع ہے۔

یہ پانچ تعریفیں اس گھر کے بارے میں اس آیت میں کی گئی ہے۔لوگوں کے ذمہ عائد احکام میں ہے کہ ہر وہ شخص جو اس گھر میں داکل ہوگا وہ اللہ کے امن میں ہوگا۔اس کا متعرض نہیں ہوسکتا۔یہاں وہ تحفط خاص ہے جو دیگر جگہوں پر نہیں ہے۔یہاں رہنے والے قتل و غارت سے محفوظ ہیں۔دوسری بات عام لوگوں پر فرض ہے اس بیت کی طرف قصد کریں اس بیت کی طرف آجائیں وہ شخص جو اس تک پہنچنے کیلے استطاعت رکھتا ہو۔اس میں استطاعت بدنی و مالی اور سفری استطاعت شامل ہیں۔
یہ آیت ان روایات کو بھی رد کرتی ہیں جن میں بیان ہے کہ یہ گھر آدم صفی اللہ سے پہلے مطاف ملائکہ تھا۔پہلا گھر جو لوگوں کیلے بنایا گیا ہے خاص آدم سے شروع ہوا ہے۔آدم سے پہلے ناس نہیں تھے۔یہ گھر قطعا غیر ناس کیلے نہیں تھا اگر ان کیلے بھی ہوتا تو اللہ یہ نہیں فرماتا کہ یہ ناس کیلے ہے۔

حج یکے از ارکان اسلام ہے قرآن میں اللہ فرماتا ہے۔
بقرہ 158،بقرہ 196،بقرہ 203،

بقرہ 158 إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ( 158 )
بےشک (کوہ) صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں۔ تو جو شخص خانہٴ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے۔ (بلکہ طواف ایک قسم کا نیک کام ہے) اور جو کوئی نیک کام کرے تو خدا قدر شناس اور دانا ہے

بقرہ 196 وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ( 196 )
اور خدا (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو۔ اور اگر (راستےمیں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈالے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔ اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل وعیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے

بقرہ 203 وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَىٰ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ( 203 )
اور (قیام منیٰ کے) دنوں میں (جو) گنتی کے (دن میں) خدا کو یاد کرو۔ اگر کوئی جلدی کرے (اور) دو ہی دن میں (چل دے) تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ اور جو بعد تک ٹھہرا رہے اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ یہ باتیں اس شخص کے لئے ہیں جو (خدا سے) ڈرے اور تم لوگ خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب اس کے پاس جمع کئے جاؤ گے

مائدہ 1،2،مائدہ 94،مائدہ 97

مائدہ 1،2 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ( 1 )
اے ایمان والو! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لیے چارپائے جانور (جو چرنے والے ہیں) حلال کر دیئے گئے ہیں۔ بجز ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ( 2 )
مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کر دیئے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت الله) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے

مائدہ 94 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( 94 )
مومنو! کسی قدر شکار سے جن کو تم ہاتھوں اور نیزوں سے پکڑ سکو خدا تمہاری آزمائش کرے گا (یعنی حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے) تا کہ معلوم کرے کہ اس سے غائبانہ کون ڈرتا ہے تو جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لیے دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے

مائدہ 97 جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ( 97 )
خدا نے عزت کے گھر (یعنی) کعبے کو لوگوں کے لیے موجب امن مقرر فرمایا ہے اور عزت کے مہینوں کو اور قربانی کو اور ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے بندھے ہوں یہ اس لیے کہ تم جان لو کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے خدا سب کو جانتا ہے اور یہ کہ خدا کو ہر چیز کا علم ہے

حج 27-29،حج 22،حج 23،حج 36-37

وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ( 27 )
اور لوگوں میں حج کے لئے ندا کر دو کہ تمہاری پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو دور دراز رستوں سے چلے آتے ہو (سوار ہو کر) چلے آئیں
لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ( 28 )
تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں۔ اور (قربانی کے) ایام معلوم میں چہار پایاں مویشی (کے ذبح کے وقت) جو خدا نے ان کو دیئے ہیں ان پر خدا کا نام لیں۔ اس میں سے تم خود بھی کھاؤ اور فقیر درماندہ کو بھی کھلاؤ
ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ( 29 )
پھر چاہیئے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور خانہٴ قدیم (یعنی بیت الله) کا طواف کریں

حج 22 كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ ( 22 )
جب وہ چاہیں گے کہ اس رنج (وتکلیف) کی وجہ سے دوزخ سے نکل جائیں تو پھر اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور (کہا جائے گا کہ) جلنے کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو

إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ ( 23 )
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا ان کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہہ رہیں ہیں۔ وہاں ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور موتی۔ اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا
حج 23
حج 36-37 وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ( 36 )
اور قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لئے شعائر خدا مقرر کیا ہے۔ ان میں تمہارے لئے فائدے ہیں۔ تو (قربانی کرنے کے وقت) قطار باندھ کر ان پر خدا کا نام لو۔ جب پہلو کے بل گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے ان کو تمہارے زیرفرمان کردیا ہے تاکہ تم شکر کرو
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ ( 37 )
خدا تک نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔ بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح خدا نے ان کو تمہارا مسخر کر دیا ہے تاکہ اس بات کے بدلے کہ اس نے تم کو ہدایت بخشی ہے اسے بزرگی سے یاد کرو۔ اور (اے پیغمبر) نیکوکاروں کو خوشخبری سنا دو

اجماع امت سے استدلال کرتے ہیں کہ حج عمر میں ایک دفعہ واجب ہے۔نیز اجماع امت کیلے بھی نبی کریم ص کی اس حدیث و فرمان سے استناد کرتے ہیں۔جو آپ نے سائل کے جواب میں فرمایا تھا اسی کو بنیاد بنا کر بہت سے لوگون کو حج تکرار کرنے والون سے چڑ ہے خاص کر اس حقیر مظلوم و محصور سے، یہاں تک کہ نجف کے ساتھی رشتے میں سسر سکردو شہر کے امام جماعت و خطیب اما قرآن و سنت محمد ص سے ناآشنا مصادر دین صرف تقلید مجتہدین پر ختم کرنے پر مصر جناب قبلہ آقای علی جوہری پر ہمارا تکرار حج کرنا بہت گراں و ناگوار گزرتا ہے۔مگر یہ کسی قسم کے ذاتی عناد و دشمنی کی بنیاد پر نہیں صرف اور صرف قرآن اور سنت محمد ص جو اصل سرچشمہ حیات شریعت ہے اس سے نا واقفیت و ناآگاہی کی بنیاد پر ہی ہے ورنہ خود آیت کریمہ اور جواب رسول ص میں اس کا جواب واضح موجود ہے۔

فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ
( عمران 97)
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پا لیا اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہلِ عالم سے بے نیاز ہے

یہاں دو جملے آئے ہیں جن سے اس کے وجوب کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے لوگون کے ذمہ ہے اللہ کیلے اس کے بیت کا حج کریں دوسرا جملہ ومن کفر۔۔۔العالمین اگر کسی نے سستی و کاہلی دکھائی تو اللہ کافرون سے بے نیاز ہے۔ اما سنت نبی کریم ص سے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے

بنی الاسلام علی خمس شہادۃ ان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ،واقام الصلوۃ والصیام والصیام والزکوۃ والحج۔ امت علماء کہتے ہیں اما حج عمر میں ایک دفعہ واجب ہوتا ہے۔تکرار مستحسن نہیں ہے مطعون ہے چنانچہ بعض لوگوں کا خیال ہے ہمیں قائلین مرۃ کی بھی دلیل کو دیکھنا چاہیے۔لہذا قائلین وحدت نے دلیل میں اجماع کو پیش کیا ہے اور اجماع کی سند نبی کریم ص سے مستند حدیث سے دی ہے لیکن آیت کریمہ اور نبی کریم ص کا فرمان اس دعوی کو مشکوک و مخدوش کرتے ہیں۔

1- حج قران وہ ہے جس میں حج اور عمرہ ساتھ ہوں۔
2- حج تمتع وہ ہے جس میں حج اور عمرہ ساتھ ہوتا ہے لیکن عمرہ کرنے کے بعد محل ہو سکتے ہیں۔
3- حج افراد اس میں صرف حج ہے اور عمرہ نہیں ہے۔

حجۃ الوداع کے موقع پر بعض نے صرف عمرہ کیلے احرام باندھا تھا بعض نے دونوں کیلے احرام باندھا اور بعض نے صرف حج کیلے احرام باندھا تھا۔رسول اللہ ص نے صرف حج کیلے احرام باندھا تھا ۔حج قران وہ ہے کہ حج و عمرہ دونوں کیلے محرم ہوتا ہے احرام باندھتے ہوئے کہتا ہے لبیک اللھم بحج و عمرہ
اس سورت میں شخص محرم احرام میں باقی رہتا ہے جب تک اعمال حج ختم نہ ہوں۔
حج تمتع وہ ہے کہ انسان اسے حج کے مہینوں میں انجام دے پھر وہ احرام سے محل ہوتا ہے سلا ہوا لباس پہنتا ہے خوشبو استعمال کرتا ہے ،جب روزہائے حج پہنچ جاترے ہیں تو دوبارہ محرم ہوتا ہے،مکہ سے محرم ہوتا ہے طواف کرتا ہے ،سعی صفا و مروہ کرتا ہے،احرام سے محل ہوتا ہے۔ پھر بیٹھتا ہے ،تلبیہ کے دن دوبارہ محرم ہوتا ہے۔ جب کہ حج افراد مین حاجی میقات سے صرف حج کیلے نیت کرتا ہے لبیک اللھم بحج اور مکہ آنے کے بعد اعمال حج ختم ہونے تک احرام میں رہتا ہے۔اعمال حج ختم ہونے اہے تو عمرہ کر سکتا ہے۔

حج قرآن میں:
حج کے ارکان خمسہ اسلام میں ہونے کی بنیاد پر اس کے ہر پہلو جس میں مکانی و زمانی سب اعمال ہیں کو قرآن میں واضح و روشن محکم انداز میں اٹھایا ہے۔
1- حج کا مکان کہاں ہے،یہ قرآن کریم کی مختلف آیات میں بیان ہوا ہے۔
2- زمان حج سال کے کن مہینوں میں آتا ہے۔اس کا ذکر قرآن کی آآیات میں بیان ہوا ہے۔
3- اعمال حج بھی آیات میں بیان ہوا ہے۔
4- اصل وجوب حج بھی آیات میں بیان ہوا ہے۔

سورہ حج کی آیت 26 وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ( 26 )
(اور ایک وقت تھا) جب ہم نے ابراہیم کے لئے خانہ کعبہ کو مقرر کیا (اور ارشاد فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیجیو اور طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو

میں بیان ہے کہ مندرجہ ذیل ھدایات پر عمل کریں:
1- کعبہ بیت اللہ اس کی تعمیر میں در و دیوار میں خلل و سقوط آئے تو اس کی تعمیر واجب ہے۔
2- بندگان پر پہلا واجب اس کا طواف کرنا ہے۔اس بیت کو ہر جسمانی اور روحانی معنوی و مادی موزی و اذیت رساں تکلیف دہ چیزوں سے پاک و منزہ کرنا ہر فرد مسلمان پر واجب ہے۔ جس طرح نجاسات ظاہری و فضلات حیوانی و خون وغیرہ سے گھر کو پاک رکھنا ضروری ہے اسی طرح مشرکین اور اہل معاصی اور کفر آمیز باتوں سے اس گھر کو پاک و منزہ رکھنا ضروری ہے۔
3-ایک ادارہ یا افراد لائق و صالح و دیندار ملک میں پیدا ہونے چاہیں جو قبل از وقت یا اوقات حج لوگوں کو حج کی طرف دعوت دین اور انہیں بغیر کسی معاوضے اور طلب اجرت کے مسائل حج سے آگاہ کریں۔
4- ان مقامات مقدسہ حرم مکی عین عرفات مشعر مزدلفہ منی میں ذکر اللہ حجاج کی زبان پر جاری رہے تکبیر و تحلیل و تسبیح ہر مسلمان اپنی زبان سے خود ادا کرے نہ اس کیلے کسی نشست کا اہتمام کیا جائے اور کوئی دوسرا شخص اس کی تلقین کرے۔
5- جو ہدیہ حاجی کعبہ کیلے منی میں بطور ہدیہ پیش کرتا ہے اس کا کچھ حصہ خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی دے۔
6- حلق و تقصیر رمی جمرہ کے بعد کریں۔

حج احادیث میں:
1-اصول کافی
2- من لایحضر الفقیہ ج 2 ص 124 میں حدیث باب 62 سے لے کر 214 تک تقریبا 1992 اھادیث بیان کی گئی ہیں۔
3- استبصار ج 2 ص 139 شیخ طوسی ،باب 81 حدیث 452 سے 1196 تک بیان ہوئی ہیں۔
4-تہذیب کتاب الحج ج 5 ص 2 حدیث 416
5- وسائل الشیعہ تالیف محمد بن حسن حر عاملی متوفی 114 ج 11 حدیث 14107 سے لے کر 19900 تک حج سے متعلق ہیں جو جلد 11،12،13،14 میں بیان ہوئی ہیں۔
6- مستدرک الوسائل
7- بحار الانوار

کتب اہل سنت میں:
صحیح مسلم ج 8 ص 72 سے 237 تک احادیث نقل کی گئی ہیں۔
سنن ابی داؤد ج 2 ص 139 پر 1721 سے 2045 تک
سنبن ترمذی ج 3 ص 73 باب 77 میں حدیث نمبر 809 سے 967 تک
سنن نسائی ج 5 ص 110 سے 277 تک
صحیح بخاری ج 1-2-3
دار تراث العربی ص 163 سے 223 تک 224 سے زائد احادیث آئی ہیں۔

نوٹ:
مکمل تفصیل (حج،عمرہ،تاریخ حج،آداب حج،حج کی دعائیں ،سفر کی دعائیں حج کے مقامات وغیرہ وغیرہ کیلے) حج کا انسائیکلوپیڈیا Encyclopedia of Hajj موسوم بہ "معجم حج و حجاج" تالیف علامہ آغا سید علی شرف الدین الموسوی بلتستانی ملاحظہ کیجے۔

"معجم حج و حجاج" آغا علی شرف الدین کی آفیشل ویب سائیٹ پر مفت ڈاونلوڈ کیلے دستیاب ہے:

www.sibghtulislam.com