Saturday 5 April 2014

خلفائے راشدین

"ایک انصاف پسند مسلمان کو اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ جو ہستیاں اس منصب پر یک بعد دیگرے آئیں وہ انہیں افراد میں سے ہیں جنہوں نے اسلام کے شروع ہوتے ہی یک بعد دیگر ایمان بہ نبوت و رسالت محمد پر پیعت کی،جنہوں نے نبی کریم ص کے فرمان پر اللہ کی راہ میں خانہ و آشیانہ و عزیز و اقارب اور والدین و اولاد چھوڑ کر دیار اجنبی میں بے سر و سامانی کے عالم میں ہجرت کی۔اللہ تعالی نے کثیر بار اپنی کتاب میں ان کی مدح سرائی کی ہے جنہون نے اپنے خانہ و آشیانہ کو اسلام کی خاطر خیر باد کہا ۔
سلام ہو ان انصار پر جنہوں نے مہاجرین کی معاونت و ہمکاری میں بے نظیر مثالیں قائم کیں۔
رضی اللہ عنھم و رضو عنہ (سورہ بینہ آیت 8)

اگر نبی کسی سفر پر جاتے تو انہیں کو اپنی جگہ پر معین فرماتے اور بعد میں انہیں میں سے یکے بعد دیگرے اس مقام پر فائز ہوتے۔

ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی ججھک نہیں ہونی چاہیے کہ پیغمبر اسلام کے بعد خلفائے راشدین کا دور خلافت ہمارے لئے 1400 سال گزرنے کے بعد اب بھی عدالت و انصاف اور صداقت کے حوالے سے ستاروں کی مانند روشن و تابناک اور بہترین و منفرد دور حکومت ہے،چنانچہ فلیسوف اسلام و شرق شہید محمد باقر الصدر نے فرمایا:

"اس 30 سالہ حکومت اسلامی کے بے مثال و بے نظیر ہونے کے بارے میں ہمیں اعتراف کرنے میں کوئی جھجک یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔"
(شہید محمد باقر الصدر،فدک فی التاریخ)

مفکر بزرگ مرحوم مہدی شمس الدین رئیس مجلس اعلی شیعی لبنان اسلامی سالانہ برسی کے موقع پر دئے گئے خطاب میں جسے مجلہ المنطق صادر از لبنان نے شائع کیا ہے فرماتے ہیں کہ:

" بنی امیہ و بنی عباس سلاطین صفوی ،عثمانی اور آل بویہ کی بہ نسبت خلفائے راشدین کے دور حکومت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔خلیفہ دوئم کی فارس پر لشکر کشی کے ثمرات میں سے ہے کہ اس وقت ہم یہاں پر (ایران) جمع ہیں۔"

لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ذوات کا انتخاب کسی اصول و ضوابط کے تحت انجام نہیں پایا چنانچہ خلیفہ دوم کا تصریح ہے امت میں قرآن و سنت و سیرت رسول کے ہوتے ہوئے جانشین رسول کے انتخاب میں بے ضابطگیوں کا پایا جانا ایک حسرت ہے اور یہ حسرت ہمیشہ رہے گی۔

لہذا ہم یہاں واشگاف الفاظ میں یہ واضح کرتے ہیں کہ ان خلفاء سے دشمنی علی و اہل بیت ع سے محبت کا اظہار نہیں بلکہ ان سے دشمنی اسلام و قرآن و محمد اور اہل بیت سے دشمنی ہے۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جو لوگ شیخین کو عداوت و نفرت اور سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ اسلام میں کفر و الحاد اور شرک کو ہی فروغ دیا ہے۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انہیں اسلام و قرآن سے دشمنی ہے لیکن ان کا یہ کہنا کہ:

"اللہ اور اس کے رسول کو پتہ نہیں چلا کہ ان کے دلوں میں کفر و بت پرستی اور ہوس اقتدار چھپا تھا" اس سے بڑی جسارت اور اہانت اللہ اور اس کے رسول کی شان میں نہیں ہوسکتی۔کیا ایسے لوگ اللہ و رسول سے زیادہ دور اندیش بنتے ہیں لیکن ان کی اس دور اندیشی کا دعوی نبی کریم ص کی شان میں تطبیق نہیں ہوتا کیونکہ آپ ص نے بار بار انہیں عزت و افتخار بخشا ہے۔

کیا یہ افراد خلفائے مسلمین حضرت ابوبکر رض،عمر رض،عثمان رض اور علی ع کے دور خلافت جیسا کوئی نمونہ لا سکتے ہیں تاکہ ہم اسے تمام عالمین اسلام کے سامنے پیش کر سکیں۔؟؟؟"

(کتاب اٹھو قرآن کا دفاع کرو 23،24صفحات ، آغا علی شرف الدین علی آبادی)
Photo: ‎"ایک انصاف پسند مسلمان کو اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ جو ہستیاں اس منصب پر یک بعد دیگرے آئیں وہ انہیں افراد میں سے ہیں جنہوں نے اسلام کے شروع ہوتے ہی یک بعد دیگر ایمان بہ نبوت و رسالت محمد پر پیعت کی،جنہوں نے نبی کریم ص کے فرمان پر اللہ کی راہ میں خانہ و آشیانہ و عزیز و اقارب اور والدین و  اولاد چھوڑ کر دیار اجنبی میں بے سر و سامانی کے عالم میں ہجرت کی۔اللہ تعالی نے کثیر بار اپنی کتاب میں ان کی مدح سرائی کی ہے جنہون نے اپنے خانہ و آشیانہ کو اسلام کی خاطر خیر باد کہا ۔
سلام ہو ان انصار پر جنہوں نے مہاجرین کی معاونت و ہمکاری میں بے نظیر مثالیں قائم کیں۔
رضی اللہ عنھم و رضو عنہ (سورہ بینہ آیت 8)

اگر نبی کسی سفر پر جاتے تو انہیں کو اپنی جگہ پر معین فرماتے اور بعد میں انہیں میں سے یکے بعد دیگرے اس مقام پر فائز ہوتے۔

ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی ججھک نہیں ہونی چاہیے کہ  پیغمبر اسلام کے بعد خلفائے راشدین کا دور خلافت ہمارے لئے 1400 سال گزرنے کے بعد اب بھی عدالت و انصاف اور صداقت کے حوالے سے ستاروں کی مانند روشن و تابناک اور بہترین و منفرد دور حکومت ہے،چنانچہ فلیسوف اسلام  و شرق شہید محمد باقر الصدر نے فرمایا:

"اس 30 سالہ حکومت اسلامی کے  بے مثال و بے نظیر ہونے کے بارے میں ہمیں اعتراف کرنے میں کوئی جھجک یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔"
(شہید محمد باقر الصدر،فدک فی التاریخ)

مفکر بزرگ مرحوم مہدی شمس الدین رئیس مجلس اعلی شیعی لبنان اسلامی سالانہ برسی کے موقع پر دئے گئے خطاب میں جسے مجلہ المنطق صادر از لبنان نے شائع کیا ہے فرماتے ہیں کہ:

"  بنی امیہ و بنی عباس  سلاطین صفوی ،عثمانی اور آل بویہ کی بہ نسبت خلفائے راشدین کے دور حکومت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔خلیفہ دوئم کی فارس پر لشکر کشی کے ثمرات میں سے ہے کہ اس وقت ہم یہاں پر (ایران) جمع ہیں۔"

لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ذوات کا انتخاب کسی اصول و ضوابط کے تحت انجام نہیں پایا چنانچہ خلیفہ دوم کا تصریح ہے امت میں قرآن و سنت و سیرت رسول کے ہوتے ہوئے جانشین رسول کے انتخاب میں بے ضابطگیوں کا پایا جانا ایک حسرت ہے اور یہ حسرت ہمیشہ رہے گی۔

لہذا ہم یہاں واشگاف الفاظ میں یہ واضح کرتے ہیں کہ ان خلفاء سے دشمنی علی و اہل بیت ع سے محبت کا اظہار نہیں بلکہ ان سے دشمنی اسلام و قرآن و محمد اور اہل بیت سے دشمنی ہے۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جو لوگ شیخین کو عداوت و نفرت  اور سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ اسلام میں کفر و الحاد اور شرک کو ہی فروغ دیا ہے۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انہیں اسلام و قرآن سے دشمنی ہے لیکن ان کا یہ کہنا کہ:

"اللہ اور اس کے رسول کو پتہ نہیں چلا کہ ان کے دلوں میں کفر و بت پرستی اور ہوس اقتدار چھپا تھا" اس سے بڑی جسارت اور اہانت اللہ اور اس کے رسول کی شان میں نہیں ہوسکتی۔کیا ایسے لوگ اللہ و رسول سے زیادہ دور اندیش بنتے ہیں لیکن ان کی اس دور اندیشی کا دعوی نبی کریم ص کی شان میں تطبیق نہیں ہوتا کیونکہ آپ ص نے بار بار انہیں عزت و افتخار بخشا ہے۔

کیا یہ افراد خلفائے مسلمین حضرت ابوبکر رض،عمر رض،عثمان رض اور علی ع کے دور خلافت جیسا کوئی نمونہ لا سکتے ہیں تاکہ ہم اسے تمام عالمین اسلام کے سامنے پیش کر سکیں۔؟؟؟"

(کتاب اٹھو قرآن کا دفاع کرو 23،24صفحات ، آغا علی شرف الدین علی آبادی)‎

No comments:

Post a Comment